رسائی کے لنکس

قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات؛ سوئیڈن کے قوانین کیا کہتے ہیں؟


جمعرات کو اسٹاک ہوم میں عراقی سفارت خانے کے باہر احتجاج میں قرآن نذرِ آتش کرنے والا شخص سلوان مومیکا۔
جمعرات کو اسٹاک ہوم میں عراقی سفارت خانے کے باہر احتجاج میں قرآن نذرِ آتش کرنے والا شخص سلوان مومیکا۔

سوئیڈن میں بعض اسلام مخالف افراد کی جانب سے سرِ عام قرآن کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات پر مسلم ممالک میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایسے کسی عمل کی اجازت کیوں دی جاتی ہے؟ یہ سوال مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ سوئیڈن میں بھی اٹھایا جارہا ہے۔

ایسا ایک حالیہ واقعہ جمعرات کو ہوا جب اسٹاک ہوم میں عراقی سفارت خانے کے باہر ایک عراقی شخص نے قرآن کی بے حرمتی کی۔

سوئیڈن کی پولیس نے عراقی سفارت خانے کے باہر اس احتجاج کی اجازت دی تھی اور جس وقت دو مظاہرہ کرنے والے افراد نے قرآن کے اوراق کو روندا تو پولیس کچھ فاصلے پر ان کے مقابل آنے والے چند مظاہرین کو روکنے کے لیے وہاں موجود تھی۔

سوئیڈن میں ایسے واقعات سے متعلق قوانین کیا کہتے ہیں؟ جانیے اس تحریر میں۔

کیا سوئیڈن میں قرآن نذرِ آتش کرنے کی اجازت ہے؟

سوئیڈن میں ایسا کوئی قانون نہیں جو قرآن یا کسی بھی مذہبی کتاب کو نذرِ آتش کرنے یا اس کی بے حرمتی سے روکتا ہو۔ دیگر کئی مغربی ممالک کی طرح سوئیڈن میں توہینِ مذہب کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے۔

لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر تک سوئیڈن میں توہینِ مذہب سنگین جرم تصور ہوتا تھا اور اس کی سزا موت تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ قانون میں مذہب کا عمل دخل ختم ہونے سے توہینِ مذہب سے متعلق قوانین نرم ہوتے گئے۔ 1970 میں سوئیڈن میں توہینِ مذہب سے متعلق تمام قوانین ختم کردیے گئے۔

کیا سوئیڈش حکام اسے روک سکتے ہیں؟

کئی مسلم ممالک سوئیڈن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ احتجاج کے لیے قرآن نذرِ آتش کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ لیکن سوئیڈن میں کسی احتجاج یا عوامی اجتماع کی اجازت دینے کا اختیار حکومت کے بجائے پولیس کے پاس ہے۔

سوئیڈن کے آئین میں آزادیٔ اظہار کو تحفظ دیا گیا ہے۔ کسی بھی عوامی اجتماع یا احتجاج کی درخواست کو مسترد کرنے کے لیے پولیس کو واضح اسباب فراہم کرنا ہوتے ہیں۔

اسٹاک ہوم پولیس نے رواں برس فروری میں قرآن نذرِ آتش کرنے کی دو درخواستیں مسترد کی تھیں اور اس فیصلے کے لیے سوئیڈشن سیکیورٹی سروس کے اس رپورٹ کا حوالہ دیا تھا جس کے مطابق ایسے کسی احتجاج سے سوئیڈن میں دہشت گردی کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

تاہم بعد میں سوئیڈن کی ایک عدالت نے پولیس کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خدشات کے بجائے کسی احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس کے پاس مزید کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔

کیا قرآن کی بے حرمتی نفرت انگیزی ہے؟

سوئیڈن میں ہیٹ اسپیچ یا نفرت انگیزی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین میں کسی نسل، رنگ، مذہب، جنسی رجحان یا شناخت کی بنیاد پر کسی گروہ کے خلاف نفرت انگیزی کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ قرآن کو نذرِ آتش کرنا مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیزی کا باعث بنتا ہے۔ لہذا اسے ہیٹ اسپیچ تصور کرنا چاہیے۔ جب کہ دیگر کے نزدیک اس عمل کا ہدف اسلام بطور مذہب ہے مسلمان نہیں۔

ان کے نزدیک کسی بھی مذہب پر تنقید آزادیٔ اظہار کے زمرے میں آتی ہے پھر چاہے وہ کسی کے لیے تکلیف کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔

سوئیڈن کی پولیس نے اپنے نظامِ قانون کے مطابق ابتدائی طور پر گزشتہ ماہ مسجد کے سامنے قرآن نذرِ آتش کرنے والے شخص کے خلاف نفرت انگیزی کا مقدمہ درج کیا تھا۔ اسی شخص نے جمعرات کو یہ عمل دہرایا ہے۔ اب یہ پراسیکیوٹرز پر منحصر ہے کہ وہ اس شخص پر نفرت انگیزی کے قوانین کے تحت فردِ جرم عائد کرتے ہیں یا نہیں۔

کیا سوئیڈش حکام کا رویہ اسلام سے متعلق مختلف ہے؟

سوئیڈن کے بعض ایسے مسلمان جنھیں قرآن نذرِ آتش کرنے کے حالیہ واقعات سے شدید تکلیف پہنچی ہے وہ سوال کرتے ہیں کیا پولیس دیگر مذاہب کی کتابیں نذرِ آتش کرنے کی اجازت دے گی۔

ایک مسلمان شخص نے آزمائش کے لیے ایسا ہی ایک احتجاج کر نے کی درخواست دی تھی جس میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے تورات اور بائبل کو نذرِ آتش کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔

اگرچہ اسرائیلی حکام اور یہودی تنظمیوں نے اس کی مذمت کی تھی اور سوئیڈن پر یہ احتجاج روکنے کے لیے زور دیا تھا تاہم پولیس نے مسلم شخص کو احتجاج میں یہودیوں کی مقدس کتابیں نذرِ آتش کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

تاہم درخواست دینے والا شخص عین موقع پر کتابوں کو نذرِ آتش کرنے کے ارادے سے پیچھے ہٹ گیا اور اس نے کہا کہ بطور مسلمان وہ کسی بھی مذہبی کتاب کی بے حرمتی کے خلاف ہے۔

توہینِ مذہب سے متعلق دنیا میں رائج قوانین

توہینِ مذہب دنیا کے کئی ممالک میں جرم ہے۔ امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر نے 2019 میں 198 ممالک کے قوانین کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ جاری کی تھی۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کم از کم ایسے 79 ممالک یا زیرِ انتظام علاقے ہیں جہاں توہینِ مذہب کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ ان قوانین میں خدا یا کسی مقدس ہستی سے متعلق کسی بھی اہانت آمیز تقریر و تحریر یا عمل کو توہینِ مذہب کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان، برونائی، ایران، موریطانیہ، نائیجیریا، پاکستان اور سعودی عرب ایسے سات ممالک ہیں جہاں توہینِ مذہب کی سزاؤں میں موت کی سزا بھی شامل ہے۔

مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے 20 میں سے 18 ممالک میں توہینِ مذہب کو جرم تو قرار دیا گیا ہے لیکن وہاں اس پر سزائے موت نہیں ہو سکتی۔

عراق میں کسی بھی مذہبی فرقے یا جماعت کے لیے مقدس تصور ہونے والی شخصیت یا علامت کی سرِ عام توہین پر تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

فرقہ ورانہ کشیدگی کے باعث 1975 سے 1990 تک خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملک لبنان میں سماجی ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی مذہبی طبقے یا مکتبِ فکر کی مقدس شخصیات یا علامات کی توہین کو جرم قرار دیا گیا ہے جس میں تین برس تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم میں دیے گئے آزادیٔ اظہار کے تحفظ کی بنا پر احتجاج کے لیے قرآن یا کسی مذہبی کتاب کو نذرِ آتش کرنے کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سال 2020 میں ریاست فلوریڈا کے ایک مسیحی رہنما ٹیری جونز نے نائن الیون حملوں کی برسی کے موقع پر قرآن نذرِ آتش کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس اعلان پر حکام نے تشویش کا اظہار تو کیا تھا لیکن وہ ٹیری جونز کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرسکے تھے۔ جونز اس سال تو اپنے مںصوبے پر عمل نہیں کرسکے تاہم اگلے سال انہوں نے فلوریڈا ہی میں قرآن نذرِ آتش کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG