جاسوسی اور حملے، شام و عراق میں ڈرون کا وسیع استعمال

فائل

اس سے قبل پاکستان اور یمن کے مشتبہ دہشت گرد اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنائے جانے کے بعد، ڈرون کے استعمال کو داعش کے اہداف کے خلاف وسعت دی گئی ہے۔ تاہم، ترکی، شام، ایران، روس، امریکہ، برطانیہ اور عراق کے علاوہ، کُرد ملیشیائیں، شامی باغی فوج، حزب اللہ اور داعش بھی ڈرون کا استعمال کر رہے ہیں

سروان کاجو/مہدی جدینیہ

گذشتہ ماہ عراق کے صوبہٴ انبار میں جب ایک عراقی فوجی نے آسمان پر پرواز کی آواز سنی تو اُس نے پرندے کی سائز کے ایک ماڈل طیارے کو نشانہ بنایا اور اُسے مار گرایا۔

اس پر تحقیق کے بعد، عراق کی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ یہ نگرانی پر مامور ایک ڈرون تھا، جسے انٹرنیٹ پر 1000 ڈالر سےکم قیمت پر انٹرنیٹ پر خریدا جا سکتا ہے۔ گرائے گئے اُس ڈرون کو داعش کا شدت پسند گروپ اڑا رہا تھا۔

فیس بک پر ایک پوسٹ میں، وزارتِ دفاع نے بتایا کہ ''جَری فوجی نےجاسوسی کرنے والے طیارے کو مار گرایا، جو داعش کے سرغنوں کی ملکیت تھا''۔

اِسی قسم کے واقعات عراق اور شام میں عام ہوتے جا رہے ہیں۔ کم از کم سات ملکوں کے ڈرون، ساتھ ہی کئی ملیشیائوں اور فوجوں، جن میں داعش کا شدت پسند گروپ بھی شامل ہے، عراق، شام اور ترکی کے افق پر ڈرون کو اڑا رہے ہیں۔ یہ بات خطے کے تجزیہ کاروں اور اہل کاروں نے انٹریوز میں بتائی ہے۔

امریکی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل، رابرٹ کسیدی، ڈرون کی بھرمار کے مطالعے سے وابستہ ہیں۔ بقول اُن کے، ''ڈرونز نے لڑائی کے نئے زاویے کھول دیے ہیں جن سے میدانِ جنگ کی شکل یکسر بدل چکی ہے، جس کے باعث مقابلہ مزید پیچیدہ اور جدید تر ہو چکا ہے''۔

عراق اور شام میں استعمال ہونے والے ڈرون جدید ترین فوجی ساز و سامان سے لیس ہیں، جنھیں امریکی قیادت والا فوجی اتحاد استعمال کرتا ہے، تاکہ داعش کے شدت پسند گروپ کو نشانہ بنایا جاسکے۔

ساتھ ہی، جو دوسرے ملک اس خطے میں ڈرون استعمال کرتے ہیں وہ ترکی، شام، ایران، روس، امریکہ، برطانیہ اور عراق ہیں۔ کُرد ملیشیائیں، شامی باغی فوج، حزب اللہ اور داعش بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔

اُن کا مشن عام نگرانی کی پرواز کے علاوہ امریکی قیادت والے اتحاد کی جانب سے دہشت گرد سرغنوں کو ہدف بنا کر ٹھکانے لگانا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق، ایسے میں جب پینٹاگان ڈرون پروگرام کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، حالیہ مہینوں کے دوران متعدد بار یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ڈرون کی مدد سے داعش کے خاص اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

داعش کے اہداف میں ’جہادی جان‘ بھی شامل تھا، جسے بھیانک وڈیوز میں امریکی اور مغربی یرغمالیوں کے سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے۔

ڈرون پروگرام، جسے ’سی آئی اے‘ اور خصوصی کارروائیوں کی مشترکہ کمان چلاتی ہے، اِسے زیادہ تر ترکی کے فوجی اڈے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

شائع شدہ رپورٹس کے مطابق، برطانیہ بھی ڈرون کی کارروائی میں شریک ہے اور ترکی نے اعلان کیا ہے کہ اس کی افواج نے یکم مئی کو چار امریکی ساختہ ڈرونز کی مدد سے داعش پر حملہ کیا۔

پینٹاگان نے ’وائس آف امریکہ‘ کی جانب سے کی گئی ایک درخواست کو مسترد کیا جس میں ڈرون پروگرام کی تفصیل بتانے کے لیے کہا گیا تھا، جسے ابتدائی طور پر پاکستان اور یمن کے مشتبہ دہشت گرد اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنائے جانے کے بعد وسعت دی گئی ہے۔

امریکی ڈرونز کے استعمال میں دی جانے والی وسعت کے معاملے پر انسانی حقوق کے گروپوں نے تنقید کی ہے، جب کہ کانگریس اور بیرونی ممالک کے کچھ ارکان نے بھی اس پر نکتہ چینی کی ہے۔

شام میں، داعش نے اس کے خلاف اقدامات کیے ہیں، جس میں رقعہ کے فی الواقع دارالحکومت کی چھتوں اور دیگر مقامات کو سیاہ رنگ کا لیپ دیا گیا ہے، یا پھر کالے رنگ کے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ انتہا پسند گروپ نے ڈرون کارروائی انجام دینے والے امریکی فوجی اہل کاروں کے نام اور ایڈریس انٹرنیٹ پر ڈال دیے ہیں۔

ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا برجستہ استعمال

دیگر جہادی گروہوں کے برخلاف، داعش یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہا ہے۔ وہ ہر روز کئی بار ڈرون اڑاتا ہے تاکہ دشمنوں کے بارے میں اطلاعات جمع کی جائیں اور فضائی نوعیت کا فٹیج بنایا جائے، جسے پروپیگنڈا پر مبنی وڈیوز کے لیے استعمال کیا جائے۔

سنہ 2014 میں کوبانی کو سر کرنے کی لڑائی کے دوران، داعش نے ڈرون کے بارے میں فٹیج جاری کیا تھا جس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ اُن کے لڑاکا خودکش بم حملوں میں ملوث ہیں۔

متعدد فوجی اہل کاروں نے کہا ہے کہ داعش نے عراقی اور کرد افواج کے اڈوں کے قریب جاسوسی کی غرض سے ڈرون اڑائے ہیں۔

کُرد پیشمرگہ کمانڈر، قادر کے بقول، ’’ہم صاف طور پر دیکھ رہے ہیں کہ داعش ہمارے اگلے محاذوں کے بارے میں جاسوسی کرنے کے لیے ڈرون اڑاتا ہے‘‘۔

قادر نے کہا کہ ڈرون کی پروازیں اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ فوجی کمانڈر بتاتے ہیں کہ یہ تمیز کرنا محال ہے کہ اِن میں سے داعش، کُرد یا اتحادی ڈرون کونسے ہیں۔

بقول اُن کے، ’’کبھی کبھار وہ انتہائی اونچی پرواز کرتے ہیں یا پھر ہمیں اس بات کا یقین نہیں ہوتا آیا وہ ہمارے دوستوں کے ہیں یا دشمنوں کے ہیں‘‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش نے یہ ڈرون اُن آلات اور پُرزوں سے بنائے ہیں جن کی تفصیل انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق، عراقی شہر، موصل کے قریب داعش کے ڈرون کے کئی کارخانے قائم ہیں۔

عراقی افواج، جو 2014ء کے وسط سے داعش کے لڑاکوں سے نمٹ رہی ہیں، وہ بھی کہتی ہیں کہ وہ ڈرون استعمال کرتی ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل انور امین، عراقی فضائیہ کے کمانڈر ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’اُن کی مدد سے خاص طور پر داعش کے اڈوں کی معلومات آسانی کے ساتھ فراہم ہوتی ہے‘‘۔

متعدد رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عراق نے کچھ ڈرون ایران سے خریدے ہیں، جو بغداد کی شیعہ قیادت والی حکومت کی حمایت کرتی ہے۔

امین نے ایرانی ڈرون استعمال کرنے کی رپورٹوں کو مسترد کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عراق اپنے زیادہ تر ہتھیار چین اور کچھ امریکہ سے خریدتا ہے۔ بقول اُن کے، ’’امریکہ سے خریدی جانے والی ٹیکنالوجی نگرانی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے، جب کہ چین سے خریدے گئے ڈرون سے داعش کے اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ڈرونز کی بھرمار

کمانڈر نے کہا ہے کہ ڈرون کے استعمال میں اس لیے اضافہ دیکھا گیا ہے، کیونکہ یہ ارزاں اور ساتھ ہی تیار کرنے میں انتہائی سہل ہیں۔ اُن کے الفاظ میں، ’’آپ مارکیٹ سے اس کے پُرزے خرید سکتے ہیں، جب کہ اس کے ڈیزائن انٹرنیٹ پر مسیر ہیں‘‘۔

کُرد افواج، جو شمالی عراق میں داعش سے نبردآزما ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ داعش کے بارے میں اطلاعات کے حصول کے لیے ڈرون استعمال کرتی ہیں۔

حاسو میر خان، موصل کے قریب تعینات پیشمرگہ کے معاون کمانڈر ہیں۔ بقول اُن کے، ’’داعش انتہائی درجے کی شاطر ہے، کیونکہ اُس کے لڑاکے وسیع تر علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں، جب کہ اُن کی تعداد بڑھتی گھٹتی رہتی ہے۔ ڈرون کی مدد سے ہمارے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھٹکتے ہیں، ہم اُن کا پیچھا کرسکتے ہیں۔‘‘

میر خان نے کہا کہ عراق کُرد امریکی قیادت والے اتحاد کی مدد اور رابطے میں رہ کر اپنے ڈرون اڑاتے ہیں۔ اُن کے بقول، ’’ہم ہر اگلے محاذ کی نگرانی کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن، اُن کی اصل تعداد نہیں بتا پائیں گے‘‘۔

فوجی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اِسی طرح سے، شام کے افق پر بھی متعدد ڈرون پرواز کرتے ہیں، جن کا تعلق کئی دھڑوں سے ہے اور یہ پانچ سالہ خانہ جنگی کے دوران پائے جاتے رہے ہیں۔

روس کی وزارتِ دفاع کے ترجمان، جنرل اگور کونا شنکوگ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ شام کی کارروائی کے دوران روس نے جاسوسی کے لیے بڑی تعداد میں ڈرون کا استعمال کیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ بغیر پائلٹ والے یہ طیارے شام میں خفیہ اطلاعات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جو ’’دن رات اڑتے رہتے ہیں‘‘۔

روس ستمبر میں فوجی طیاروں کے ساتھ لڑائی میں کود پڑا، جس کی مدد سے روس نے شام کے صدر بشار الاسد کو فوجیں فراہم کیں، اور اسد حکومت کے خلاف باغیوں اور داعش کےخلاف لڑنے کے لیے خوفناک حربی قوت فراہم کی۔

حکومتِ شام کو مدد فراہم کرنے کے لیے ایران بھی ڈروں طیاروں کی پرواز کرتا ہے۔

طاقتور پاسدارانِ انقلاب کے محافظ دستے نے فروری میں اعلان کیا کہ ایرانی ساختہ ’شاہد 129‘ قسم کا بغیر پائلٹ والا طیارہ شام میں حکومت کی حامی افواج کو لڑاکا حمایت فراہم کرتا ہے۔

سجاد جعفری، تہران میں تعینات ایرانی ڈرون کے ماہر ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’گذشتہ ایک عشرے کے دوران ایران نے ڈرون ٹیکنالوجی پر بے انتہا سرمایہ کاری کی ہے۔ ایرانی ڈرونز نے داعش کے خلاف لڑائی میں حکومتِ شام کی مدد کی ہے‘‘۔

سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں ایرانی ڈرون کئی شام فوجی اڈوں پر موجود دکھائی دیتے ہیں، جن میں دمشق اور ہمہ کے فضائی اڈے شامل ہیں۔

لبنان کا یہ شیعہ گروپ جو اسد حکومت کی حمایت کے لیے ایرانیوں کے ہمراہ لڑ رہا ہے، اُس نے بھی ڈرون کا استعمال جاری رکھا ہے۔

حزب اللہ کے ’المنار ٹیلی ویژن‘ نے ایک فٹيج دکھائی ہے، جس کے بارے میں اُس کا کہنا ہے کہ یہ شام لبنان سرحد کے ساتھ کیا جانے والا ڈرون حملہ ہے۔

’آئی ایج ایس جینز‘ فوجی تجزئے سے وابستہ ادارہ ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ بغیر پائلٹ کے طیارے اڑانے کے لیے، یہ گروپ شام کی سرحد کے قریب خالی لبنانی فضائی اڈا استعمال کر رہا ہے۔

واشنگٹن میں فرائض انجام دینے والےتجزیہ کار، احد الہندی شام میں لڑائی کی صورت حال کے قریبی مشاہدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بقول اُن کے، ’’ایسی حمایت کے نتیجے میں، میدانِ جنگ میں (شامی) حکومت کا اثر بڑھ رہا ہے‘‘۔

تاہم، اسد مخالف باغی گروپ، جیسا کہ ’حزب اسلام‘ بھی ڈرون استعمال کر رہا ہے۔ الہندی کے الفاظ میں ’’اُنھوں نےڈرونز میں جدید کیمرے لگائے ہوئے ہیں جن کی مدد سے مخالف فریق کی خفیہ نگرانی کی جاتی ہے‘‘۔

ترکی خطے میں جاری لڑائیوں کی زد میں ہے، جو اپنے ڈرون پروگرام کو ترقی دینے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، تاکہ داخلی طور پر ترکی کے اندر اور باہر شام، عراق اور کُرد باغیوں اور داعش کے لڑاکوں کے خلاف ڈرون استعمال کیے جائیں۔

’انقہ بلاک اے‘ سب سے بڑا ڈرون ہے جسے ترکی نے فروری میں تشکیل دیا۔

ترک سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے ’حریت‘ اخبار نے بتایا ہے کہ، ترک ڈرون نے اپریل میں شام میں شمالی حلب کے علاقے میں دو میزائل لائنچروں کا پتا لگایا۔

ترک فوج نے اپنے ’ہووٹزرز‘ کی مدد سے داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کیا، جس میں داعش کے 13 لڑاکے ہلاک جب کہ سات زخمی ہوئے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترک فوج بھی ترکی کے اندر کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے کُرد شدت پسندوں کے خلاف ڈرون استعمال کر رہا ہے، جس کے باعث ترکی میں ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے، ایسے میں جب شہری آبادی کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

کان کساپوگلو استنبول میں قائم ’سینٹر فور اکانامکس اینڈ فورین پالیسی اسٹڈیز‘ سے وابستہ دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ بقول اُن کے، ’’(ڈرون کے استعمال) سے متعلق کچھ قانونی معاملات ہیں، خاص طور پر اُس وقت جب شہریوں کے خلاف مہلک حملے کیے جاتے ہیں، جن میں ’پی کے کے‘ کے افراد ہدف بنتے ہیں‘‘۔