ضیا الرحمٰن
مصباح الحق نے اپنے کیرئر کا 75واں اور آخری میچ رواں سال ويسٹ انڈيز کے شہر ڈومينيکا کے سٹيڈيم، روسيو ميں کھیلا، جس میں وہ قابل ذکر سکور تو نہیں کر سکے، لیکن ان کی کپتانی میں ٹیم ویسٹ انڈیز کو ان کے میدان پر ٹيسٹ سیریز میں شکست دینے ميں کامياب رہي۔
مصباح الحق نے اپنے کیرئر کا پہلا میچ 2001 میں نیوزی لینڈ کے خلاف آکلینڈ کے مقام پر کھیلا تھا، جہاں انھوں نے پہلی اننگز میں 28 اور دوسری میں 10 رنز بنائے تھے۔
ان 16 سالوں ميں کرکٹ کے شائقین نے مصباح الحق کو کئي ناموں سے پکارا اور مصباح نے بھي پيار کا بھرپور جواب ديتے ہوئے، پاکستان کو دنيا کرکٹ ميں کافي کاميابياں دلوائیں۔ جس طرح ہر کھلاڑي کو اپنا پہلا اور آخري ميچ ياد رہتا ہے مصباح الحق کو اسي طرح ويسٹ انڈيز سے براستہ دبئي پاکستان پہنچنا بھي ياد رہے گا۔
’ايمريٹس ائيرلائن‘ کي پرواز ای کے624 علامہ اقبال انٹرنيشنل ائيرپورٹ لاہور اتري تو مصباح کو کرکٹ کے ديوانوں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام نے خوش آمديد کہا۔ پرستار انہيں پھول پہناتے رہے تو پی سی بی کے ڈائريکٹر کرکٹ ہارون الرشيد مسلسل ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کبھي انہيں 'ٹھنڈا' کپتان کہا گیا، تو کبھي کيپٹن 'کول' تو کبھي 'ٹک ٹک' کے نام سے پکارا گيا، ليکن مصباح نے ان سب کي پرواہ کيئے بغير اپني تمام تر توجہ کرکٹَ پر رکھي اور کامیابیاں دھیرے دھیرے ان کے قدم چومتی گئیں۔
ان کے کریئر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کرکٹ کے تاریک ترین دور کو یادگار ترین بنا ڈالا۔ 2010 میں ’سپاٹ فکسنگ سکینڈل‘ کے بعد پاکستان کی ٹیم کی ازسر نو منظم کرنے کا فيصلہ کيا گيا تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو ٹیم کا کپتان مقرر کیا۔ جس وقت مصباح کو کپتانی ملی، سری لنکن ٹیم پر حملے کے باعث پاکستان کے ہوم گراونڈ ويران ہو چکے تھے۔ ممبئی دھماکے ہو چکے تھے، تین پاکستانی کرکٹرز برطانیہ کی جیل میں جا چکے تھے اور پاکستاني کھلاڑِيوں کے ليے انڈين کرکٹ ليگ کے دروازے بند ہو چکے تھے۔
بطور کپتان اپنے پہلے ہي ميچ ميں مصباح نے ٹیم کو جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارت میں کھیلی گئی سیریز میں پاکستان کو سيريز برابر کرنے ميں اہم کردار ادا کیا۔ اگست 2016 میں پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیسٹ میچوں کی درجہ بندی میں اول پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
انھوں نے مسلسل سات سال صرف وقت اور حالات سے ہی نہیں، پاکستانی صحافت سے بھی مقابلہ کیا۔
تنقید کا جواب اپنے بہتر کھيل سے دیا۔ مصباح نے اپني کپتاني کے سات سالوں میں کئي ریکارڈ بنائے اور بہت سي ٹرافیاں اٹھائیں۔
انگلینڈ اور آسٹریلیا کو کلین سویپ کیا، انڈیا کو انڈیا میں ہرایا، انگلینڈ میں سیریز برابر کی، ایشیا کی تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو اس کے ہوم گراونڈز پہ سیریز ہرائی، ایشیا کپ جیتا، آئی سی سی نے سپرٹ آف کرکٹ کا ایوارڈ دیا، وزڈن نے پچھلے سال کا چنیدہ کرکٹر قرار دیا، کرک انفو نے ہوم ایڈوانٹیج کے بغیر کھیلنے والے کپتانوں میں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا کامیاب ترین کپتان قرار دیا، گارجین نے معزز ترین ماڈرن کرکٹر کا خطاب دیا۔
مصباح الحق نے جب ڈیبیو کیا تو اس وقت ڈریسنگ روم میں وسیم اکرم، سعید انور، انضمام، یوسف، وقار یونس، اعجاز احمد اور معین خان جیسے سٹارز تھے۔ ٹیلنٹ، تکنیک یا سٹائل، کسی بھی اعتبار سے یہ اس ٹیم میں فٹ نہیں بیٹھتے تھے۔ اپني بلے بازي کي رفتار کي وجہ سے مصباح کو 'ٹک ٹک' کہا گيا۔ ليکن، یہی ٹک ٹک کرکٹر پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کے کامیاب ترین کھلاڑی تھے، جنہوں نے پہلے ٹي ٹونٹي ورلڈ کپ ميں طويل ترين چھکا لگايا۔
ائيرپورٹ سے جب مصباح اپني گاڑي ميں بيٹھ کر گھر کو رخصت ہوگئے تو کرکٹ کے ايک ديوانے نے آواز لگائي کرکٹ ول مس يو مصباح"۔