بوسنیا کے سابق سرب نژاد فوجی کمانڈر راٹکو ملاڈچ کو جمعہ کے روز پہلی بار ہیگ کی عالمی عدالت برائے جنگی جرائم کے روبرو پیش کیا گیا۔
ابتدائی سماعت کے دوران سابق سرب کمانڈر نے اپنے خلاف عائد کردہ نسل کشی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت میں اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا ہے۔
تین ججز پر مشتمل عالمی عدالت کے ٹریبیونل کے روبرو اپنا بیان دیتے ہوئے ملاڈچ کا کہنا تھا کہ وہ 90ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ کی تقسیم کے وقت ہونےو الی لڑائی کے دوران ’اپنے لوگوں اور اپنے ملک‘ کا دفاع کر رہا تھا۔
ملزم نے عدالت سے کہا کہ اسے ’ظالمانہ الفاظ‘ پر مشتمل اپنی فردِ جرم کے مطالعے کےلیے ایک ماہ سے زائد کا وقت درکار ہے۔
ملاڈچ پر 1995ء میں سربرنیکا کے مقام پر آٹھ ہزار مسلم مردوں اور لڑکوں کے قتلِ عام میں ملوث ہونے کا الزام ہے جسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں ہونے والا سب سے بڑا انسانی قتلِ عام قرار دیا جاتا ہے۔
ملزم پر بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو کو 44 ماہ تک محاصرہ میں رکھنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے جس کے باعث 10 ہزار سے زائد افراد موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔
جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران اپنا بیان دیتے ہوئے ملاڈچ نے گاہے جارحانہ اور گاہے نرم گوئی کا مظاہرہ کیا۔ ملزم نے عدالت سے کہا کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے خلاف عائد کردہ فردِ جرم کا ’ایک بھی حرف یا جملہ‘ کورٹ روم میں پڑھ کر سنایا جائے تاہم بینچ کے سربراہ ایلفنس اوری نے ملزم کی درخواست کو نظر انداز کرتے ہوئے استغاثہ کی جانب سے اس پر عائد کردہ تمام 11 الزامات پڑھ کر سنائے۔
68 سالہ ملاڈچ نے بینچ کو بتایا کہ وہ ’شدید علیل‘ ہے اور عدالت سے درخواست کی کہ وہ سماعت کو ’پرائیویٹ‘ قرار دے تاکہ وہ سماعت کی کوریج کرنے والے میڈیا کے علم میں لائے بغیر اپنی صحت کی صورتِ حال سے ججز کو آگاہ کر سکے۔
’پرائیویٹ‘ سماعت کے اختتام پر بظاہر نقاہت کا شکار ملاڈچ نے کہا کہ وہ نہیں چاہتا کہ گارڈز اسے چلنے میں سہارا فراہم کریں تاقتیکہ وہ خود اس کی درخواست نہیں کرتا۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے مقدمے کی آئندہ سماعت کےلیے 4 جولائی کی تاریخ مقرر کردی گئی۔ ملاڈچ کو آئندہ سماعت تک خود پر عائد کردہ الزامات کے خلاف اپیل دائر کرنا ہوگی اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ملزم کی جانب سے الزامات کی صحت سے انکار کا بیان عدالتی کاروائی کا حصہ بنادیا جائے گا۔
ایک زمانے میں میدانِ جنگ میں دشمنوں کو خوفزدہ کرنے والے کمانڈر کی حیثیت سے معروف ملاڈچ جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران ایک ہلکے سرمئی سوٹ میں ملبوس تھا اور خاصا کمزور دکھائی دیا۔
ملزم نے عدالت کو بتایا اس نے اپنے خلاف عائد کردہ فردِ جرم کا مطالعہ نہیں کیا ہے اور اس کے بقول اسے الزامات پر غور کرنے کےلیے ’مزید وقت‘ درکار ہے۔ اگر ملاڈچ پر عائد کردہ الزامات ثابت ہوگئے تو اسے عمر قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
ملاڈچ کو گزشتہ ہفتے سربیا میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد اسے منگل کے روز دی ہیگ منتقل کیا گیا۔
جمعہ کے روز ہونے والی مقدمہ کی ابتدائی سماعت سے قبل عدالت کی جانب سے ملاڈچ کے مقرر کیے گئے وکیل ایلگزنڈر ایلیکسک نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے موکل گزشتہ کئی برسوں سے صحت کی مناسب سہولتوں سے محروم رہے ہیں۔
وکیل کے مطابق ملاڈچ نے جمعرات کی شب دی ہیگ کے اس جیل کے اسپتال میں گزاری جہاں انہیں رکھا گیا ہے تاہم عدالتی ٹریبیونل کے مطابق ملزم کو معمول کے طبی معائنہ کےلیے اسپتال لے جایا گیا تھا۔
ملاڈچ کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ عدالت سے درخواست کرینگے کہ ان کے موکل کے مزید طبی ٹیسٹ کرانے کی اجازت دی جائے۔
ملاڈچ کی صحت کی صورتِ حال کے متعلق بحث اس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب ملزم کے ایک اور وکیل میلوس سلاجک نے ایک ایسی دستاویز رکھنے کا دعویٰ کیا تھا جس کے مطابق ان کا موکل کینسر کے مرض میں مبتلا رہا ہے اور اسے 2009ء میں سرجری سے بھی گزرنا پڑا تھا۔
تاہم ایک سرب پراسیکیوٹر برونو ویکارک نے مذکورہ دستاویز کو ایک افواہ قرار دیا ہے۔