پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے مفاد میں ہے کہ باہمی تعلقات میں ماضی کے مسائل کو نظر انداز کر کے مل کر کام کریں۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ افغانستان میں مل کر کام کرنے میں ہی امریکہ اور پاکستان کا مفاد ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد باہمی تعلقات کو بہتر کریں۔
معید یوسف نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی ہے جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا 31 اگست تک مکمل ہونا ہے۔ دوسری جانب افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بھی صورتِ حال غیر یقینی ہے۔
انٹرویو میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام کے نتیجے میں پاکستان میں مزید دہشت گردی، مہاجرین کی آمد اور اقتصادی مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے بڑے اور اہم ملک کو دور رکھ کر کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
پاکستان پر افغانستان میں طالبان کی حمایت کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد پاکستان کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد انتہا پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہوئی ہے۔
افغانستان کے امور کے ماہر احمد رشید کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت مغربی ممالک کی بہت سخت ضرورت ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضوں کے حصول اور سرمایہ کاری کی ضمانت بھی یہی ممالک کر سکتے ہیں۔
بین الاقوامی امور کی مبصر ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان نے یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ کس حد طالبان کے ساتھ رابطہ رکھ سکتا ہے۔ یہ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ پاکستان طالبان سے اس حد تک رابطہ رکھے جس حد امریکہ چاہتا ہے۔
دوسری جانب انٹرویو میں معید یوسف کا کہنا تھا کہ امریکہ میں 2001 کے حملوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے باوجود پاکستان کو شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ اور پاکستان کے حوالے سے مشیر برائے قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں سے کوئی بھی دوسرے کے بغیر پیش رفت نہیں کر سکتا۔
’امریکہ طالبان کے ساتھ سفارتی رابطوں کا کوئی طریقہ وضع کرے‘
کابل پر طالبان کے قبضے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان زور دے رہا ہے کہ طالبان افغانستان کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک جامع حکومت تشکیل دیں تاکہ پائیدار امن قائم ہو سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد حکومت کی تشکیل کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
بین الاقوامی برداری طالبان پر زور دے رہی ہے کہ وہ خواتین سمیت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انسانی حقوق کا احترام کریں بصورت دیگر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کہتے ہیں کہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں سفارتی اور اقتصادی ترقی کے لیے سرگرمیوں مں اضافہ کرے اور طالبان کے ساتھ سفارتی رابطوں کا کوئی طریقہ وضع کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کو سزا دینے کے لیے افغانستان کو الگ تھلگ نہیں کرنا چاہیے۔
تجزیہ کار احمد رشید کہتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطے ہیں مگر ابھی امریکی کانگریس میں بعض حلقوں میں یہ ناراضگی ہے کہ پاکستان نے طالبان کی بہت مدد کی اور پاکستان کو اس پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو طالبان کو بھی سمجھانا چاہیے کہ جب تک اپنی پالیسی کو نرم نہیں کریں گے تو صرف ایک دو ملک ان کی حکومت تسلیم کر سکتے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے اور پاکستان کے لیے بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
بین الاقوامی امور کی مبصر ہما بقائی کا کہنا تھا کہ اس وقت خطے کی جو صورتِ حال سامنے ہے اس میں خطے میں کیمپ جیو پالیٹکس بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات باعثِ اطمینان ہیں۔ اس کے باوجود اسلام آباد بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے۔
ہمابقائی نے مزید کہا کہ چین کے لیے طالبان سے رابطے رکھنے کے لیے پاکستان کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان افغانستان سے متعلق فیصلے اپنے مفاد کو مدِ نظر رکھ کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو بین الاقوامی قوانین کے تابع رکھنے کے لیے ان کے ساتھ امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی رابطوں کو فروغ دینا ہو گا۔
شاہ محمود قریشی کا کئی ممالک کا دورہ
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں قیامِ امن اور استحکام، مشترکہ کوششوں اور باہمی اشتراک کے لیے خطے کے چار ممالک کا دورہ کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کے دورے کے دوران ان ممالک کے وزرائے خارجہ سے افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے نقطۂ نظر سے آگاہ کیا۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے افغانستان کے موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر علاقائی سطح پر ایک متففہ اور مربوط لائحہ عمل اپنانے پر زور دیا ہے۔