کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب جمعرات کو ہونے والے دو بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 60 ہو گئی ہے، جن امریکی فوجی اور وہ افغان شہری بھی شامل تھے جو بیرون ملک جانے کے لیے وہاں جمع تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں ایک افغان عہدے دارے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس حملے میں کم ازکم 143 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
امریکی فوجی کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مک کینزی نے پنٹاگان میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں 12 امریک فوجی بھی شامل ہیں جن میں سے 11 کا تعلق میرین اور ایک کا نیوی کے طبی عملے سے ہے۔ جب کہ 15 فوجی زخمی بھی ہوئے ۔
دو خودکش بمباروں اور مسلح افراد نے جمعرات کو افغانستان کے دارالحکومت کابل کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب حملہ کیا جہاں اس وقت ملک سے باہر جانے والوں کا ہجوم تھا۔
امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے امریکی ایوان کی اسپیلر ننسی پیلوسی کو کابل ایئرپورٹ پر حملے کے بعد ٹیلی فون پر بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے 12 کا تعلق امریکی فوج سے ہے جن میں سے 11 میرین اور ایک نیوی کے طبی عملے کا رکن ہے۔ پیلوسی نے ہاؤس کی ری پبلیکن قیادت کی جانب سے تنقید اور ایوان کا اجلاس بلانے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔
پیلوسی کے ترجمان ڈریو ہیمل نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اس وقت امریکی ہیرو ایک انتہائی خطرناک انخلا کے عمل کو سرانجام دینے کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
تازہ ترین واقعات پر غور کے لیے صدر بائیڈن نے سیکیورٹی پر مامور عہدیداران سے ملاقات کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں مطابق، ''صدر کو دن بھر صورت حال سے متعلق بریف کیا جاتا رہے گا''۔
اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے اپنی ویب سائٹ عماق میں کابل ایئرپورٹ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
دھماکے کے بعد کابل میں امریکی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ ''امریکی شہریوں کو ایئرپورٹ اور ہوائی اڈے کے گیٹس کی جانب جانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو ایبی گیٹ، ایسٹ گیٹ یا نارتھ گیٹ پر موجود ہیں انھیں فوری طور پر وہاں سے چلے جانا چاہیے''۔
دھماکوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والے افراد کو کابل کے ایمرجنسی اسپتال منتقل کیا گیا ہے جسے ایک بین الاقوامی غیر سرکار ی ادارے کی مدد سے چلایا جا تا ہے، اس اسپتال میں لڑائی اور بارودی سرنگوں کی زد میں آنے والوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ افغان خبروں کے اداروں نے ویل چیئر پر سوار زخمی افراد کو دکھایا جنھیں ان کے رشتے دار اسپتال لے جار رہے تھے۔
بدھ کے روز امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ کو افغانستان میں موجود دولت اسلامیہ سے منسلک ایک دھڑے کی جانب سے ممکنہ خدشات لاحق ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ سے اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ''اس معاملےکی پیچیدہ نوعیت اور امکانی خطر ے کو بیان کرنا مشکل ہے۔ ہم شہر اور ملک میں دشمنی کے سے ماحول میں کام انجام دے رہے ہیں، جس پر ان دنوں طالبان کا کنٹرول ہے۔ اور وہاں دولت اسلامیہ (خوراسان) کی جانب سے حملے کا تقریباً حقیقی امکان موجود ہے۔ ہم ہر طرح کی پیشگی احتیاط برت رہے ہیں، لیکن معاملہ انتہائی شدید نوعیت کا ہے''۔
اس سے قبل پینٹاگان کے ذرائع نے بتایا تھا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں عام شہری اور امریکی فوج کے ارکان بھی شامل ہیں۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے میں امریکیوں سمیت افغان باشندے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
مقامی ٹی وی چیلنز نے سوشل میڈیا پر دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کو اسپتال لے جاتے ہوئے دکھایا ہے۔
طالبان کی جانب سے حملے سے متعلق ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلامی امارت کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے بم حملے کی شدید مذمت کرتی ہے، جو اس علاقے میں ہوا جہاں کی سیکیورٹی امریکی افواج کے پاس ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ''اسلامی امارت" اپنے عوام کی سیکیورٹی اور تحفظ پر بہت توجہ دے رہی ہے اور شیطانی عزائم رکھنے والے حلقوں سے سختی سے نمٹا جائے گا''۔
ادھر طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے پشتو زبان میں اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا ہے کہ یہ حملہ اس علاقے میں ہوا جہاں امریکی اہلکار چھان بین کے فرائض انجام دے رہے تھےجب کہ وہ علاقہ جس کی حفاظت طالبان کر رہے ہیں وہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق روسی حکام نے کم از کم تیرا افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
مقامی صحافی طاہر خان نے جو کابل کے ایک اسپتال کے باہر موجود تھے ، وائس آف امریکہ کی نامہ نگار عائشہ تنظیم کو ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے بتایا کہ انہوں نے دیکھا ہے کہ بیسیوں زخمیوں کو اسپتال لایا گیا ہے۔
کئی مغربی ملکوں نے دن کے آغاز پر انتباہ کر دیا تھا کہ کابل کے ہوائی اڈے پر حملے کا امکان ہے۔ قیاس تھا کہ یہ حملہ اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) کی جانب سے لوگوں کے ہجوم پر کیا جائے گا، جب کہ طالبان جنگجو لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایئرپورٹ کے دروازوں پر تعینات ہیں۔
بدھ کی شام امریکی سفارت خانے نے ہوائی اڈے کے تین داخلی دروازوں پر موجود لوگوں کو انتباہ کیا تھا کہ سیکیورٹی سے متعلق خطرے کے پیش نظر وہ فوری طور پر وہاں سے چلے جائیں۔
پاکستان میں غیرملکیوں کے لیے انتظامات
اسلام آباد سے ہمارے نمائندے ایازگل نے بتایا ہے کہ حکام نے وفاقی دارالحکومت میں ہوٹلوں کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ جمعے سے کم ازکم اگلے تین ہفتوں کے لیے اپنے ہاں کمروں کی بکنگ اور ریزرویشن روک دیں اور انہیں حکومت کی صوابدید پر رکھ دیں تاکہ افغانستان سے فوری طور پر نکلنے والے ہزاروں غیرملکیوں کو رہائش مہیا کی جا سکے۔ یہ ڈائریکٹو کابل ایئرپورٹ پر ہلاکت خیز حملے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔
ایک اور ڈائریکٹو میں دارالحکومت میں تمام مارکیوز(تقریبات کے لیے بڑی خیمہ گاہیں) کو بھی یہی احکامات جا ری کیے گئے ہیں۔
سٹرک کے راستے کابل سے پشاور 6 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ جب کہ پشاور سے اسلام آباد پہنچنے کے لیے مزید 2 گھنٹے لگتے ہیں۔
پاکستان اس وقت تین ہزار سے زیادہ غیر ملکیوں کی میزبانی کر رہا ہے جو کابل سے طیاروں یا سٹرک کے ذریعے انخلا کے بعد پاکستان پہنچے ہیں۔
امریکہ کے صدر جوبائیڈن کہہ چکے ہیں کہ 31 اگست تک افغانستان سے انخلا کا عمل مکمل ہو جائے گا جس کے ساتھ ہی امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم ہو جائے گی۔
کچھ مغربی ملک چاہتے ہیں کہ31 اگست کی ڈیڈ لائن کو کچھ آگے بڑھا دیا جائے تاکہ ان تمام لوگوں کو ملک سے باہر نکالا جا سکے جو افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند ہیں۔ تاہم طالبان نے کہا ہے کہ وہ 31 اگست کی ڈیڈ لائن میں اضافے کی اجازت نہیں دیں گے۔