کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے پریشان کن ماحول میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کیلی فورنیا کی مشہور عالم ملکہ تتلیاں نہ صرف واپس آنا شروع ہو گئی ہیں، بلکہ ان کی تعداد میں حیران کن حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
بڑے سائز کی نارنجی اور سیاہ رنگ کی خوبصورت تتلیاں کیلی فورنیا کے وسطی ساحلی علاقوں کی پہچان ہیں۔ سردیوں کا آغاز ہوتے ہی وہ بڑی تعداد میں اپنے خوبصورت پر پھیلائے درختوں اور پودوں پر منڈلانے لگتی ہیں۔ انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پت جھڑ کے اداس موسم میں ٹنڈمنڈ شاخوں سے رنگ پھوٹ رہے ہوں۔
کیلی فورنیا میں مختلف ادارے ملکہ تتلیوں کی آمد پر ان کی گنتی کرتے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے ماحول کو کس طرح متاثر کر رہی ہے۔
ملکہ تتلی ایک کمزور اور نازک جاندار ہے اور موسم کی شدت اس کی بقا کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ان کی تعداد میں مسلسل کمی ریکارڈ ہو رہی تھی اور پچھلے سال کی گنتی میں دو ہزار سے بھی کم ملکہ تتلیوں کی نشاندہی ہو سکی تھی، جس پر جنگلی حیات اور آب و ہوا کے ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا تازہ ترین نشانہ ملکہ تتلیاں بن رہی ہیں۔
حالیہ برسوں میں آب و ہوا کی تبدیلی جنگلی حیات کی کئی اقسام کو نگل چکی ہے جن میں امریکہ کا وہ ہدہد بھی شامل ہے جسے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ سمجھا جاتا ہے۔ اس خوبصورت پرندے کو گزشتہ کئی برسوں سے نہیں دیکھا گیا اور ماہرین نے چند ماہ پہلے بہت افسردگی کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ اس کی نسل دنیا سے ختم ہو گئی ہے۔
ہر سال لاکھوں کی تعداد میں کیلی فورنیا کی فضاؤں میں رنگ بکھیرنے والی ملکہ تتلیوں کی گنتی جب پچھلے سال دو ہزار کے ہندسے تک بھی نہ پہنچی تو ماہرین کو یہ فکر ہوئی کہ دنیا نارنجی اور سیاہ رنگوں کے اس دلکش امتزاج سے بھی جلد ہی محروم ہونے والی ہے۔
آپ کے لیے شاید یہ بات دلچسپ ہو گی کہ کیلی فورنیا میں موسم سرما کے آغاز پر ملکہ تتلیاں شمار کرنے کی ایک بڑی مہم چلائی جاتی ہے جو تین ہفتوں تک جاری رہتی ہے۔ یہ گنتی شمالی کیلی فورنیا کی مینڈوسینو کاؤنٹی سے لے کر باجا کے علاقوں تک کی جاتی ہے۔
اس سال ملکہ تتلیوں کی گنتی ہفتے کے روز شروع ہوئی۔ منگل تک کے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ تتلیاں گنی جا چکی ہیں۔
زرکیسز سوسائٹی کی ڈائریکٹر سیرنیا جیفسن کا کہنا ہے کہ ہم یقینی طور پر ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ملکہ تتلیوں کی نسل کی بحالی کے آثار ہیں، لیکن ہمیں خوشی ہے کہ اس صورت حال میں ہمیں ان کی بحالی کے لیے مزید کچھ وقت مل گیا ہے۔
ملکہ تتلیاں ہر سال نومبر کے شروع میں، جب موسم ٹھنڈا ہونے لگتا ہے، ملک کے مغربی حصے سے اڑ کر کیلی فورنیا کے جنوب مغربی علاقوں میں آتی ہیں اور سردیاں گزارنے کے بعد مارچ کے مہینے میں، جب موسم قدرے گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے،واپس چلی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تتلیاں انہی علاقوں اور حتیٰ کہ انہی درختوں پر اپنا پڑاؤ ڈالتی ہیں جہاں وہ سال ہا سال سے رہ رہی ہیں۔
ملکہ تتلیوں پر ہونے والی ایک مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ کیلی فورنیا کے بحرالکاحل کے ساحلی علاقے میں تقریباً ایک سو مقامات پر قیام کرتی ہیں جن میں ساحلی شہر پیسیفک گروو سب سے مشہور ہے کیونکہ سردیاں گزارنے کے لیے تتلیوں کی زیادہ تر تعداد اسی علاقے میں اترتی ہے۔ لیکن پچھلے سال یہاں ایک بھی ملکہ تتلی نظر نہیں آئی تھی۔
ابتدائی گنتی کے مطابق اب تک اس علاقے میں 13 ہزار سے زیادہ ملکہ تتلیوں کو گنا جا چکا ہے۔جب کہ ان کی آمد کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
جنگی حیات کے ماہرین اور ملکہ تتلیوں پر تحقیق کرنے والے سائنس دان ان کی تعداد میں اچانک اضافے پر حیران ہیں۔ انہیں تعجب اس بات پر ہے کہ گرم ہوتے ہوئے کرہ ارض کے باوجود وہ اپنی نسل میں یکایک اس قدر اضافہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی ہیں۔ سیرنیا جیفسن کا کہنا ہے آب و ہوا کی تبدیلی ان کی آبادی پر اثر انداز ہوئی تھی، مگر ان کی تعداد میں اب جو اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ہم یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس اچانک اضافے کی وجہ کیا ہے۔
ایک زمانے میں کیلی فورنیا میں لاکھوں کی تعداد میں ملکہ تتلیاں پائی جاتی تھیں، مگر 1980 کے عشرے میں موسمی حالات میں تبدیلی کے نتیجے میں ان کی آبادی گھٹنا شروع ہو گئی اور محتاط اندازوں کے مطابق یہ تعداد اب 99 فی صد تک گھٹ چکی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ وہ علاقے ہیں جہاں سے نقل مکانی کے دوران تتلیاں گزرتے وقت عارضی قیام کرتی ہیں۔ اس علاقے میں بڑے پیمانے پر درخت اور پودے اور پھول تھے۔ مگر انسانی آبادیاں بڑھنے، نئے شہر قائم ہونے، جنگلات کو کاٹ کر کھیتی باڑی کے لیے استعمال کرنے کے نتیجے میں ملکہ تتلیوں کی عارضی قیام گاہیں ختم ہو گئی ہیں۔ دوسرا یہ کہ آب و ہوا کی تبدیلی بھی اس پر اثر انداز ہوئی ہے اور کیلی فورنیا خشک سالی کی زد میں ہے۔
پیسیفک گروو کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ایک ماہر اسٹفنی ٹورکاٹ کہتی ہیں کہ ملکہ تتلیوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی کی ایک اور وجہ ریاست کیلی فورنیا کی خشک سالی ہے جس کا سامنا وہ گزشتہ کئی برسوں سے کر رہی ہے۔ تتلیوں کو سفر کے دوران اپنا پیٹ بھرنے اور اپنے جسم میں توانائی برقرار رکھنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر نقل مکانی کے راستوں میں انہیں خوراک مہیا کرنے والی جگہیں اب بہت کم باقی رہ گئی ہیں۔ اگر پانی نہیں ہو گا تو سبزہ اور پھول بھی نہیں ہوں گے۔
ملکہ تتلیاں بجا طور پر حکومتی اداروں سے یہ شکایت کر سکتی ہیں کہ انہیں وہ تحفظ حاصل کیوں نہیں ہے جو معدومی کے خطرے کا سامنا کرنے والی جنگلی حیات کو فراہم کیا جاتا ہے۔