’میرے باپ نے ہجرت کی تھی
میں نے نقل مکانی
اس نے اک تاریخ لکھی تھی میں نے ایک کہانی‘
یہ سطور امریکہ میں دہائیوں سے آباد پاکستانی نژاد اردو شاعر مقسط ندیم کی ہیں جو لگ بھگ اتنا ہی عرصہ امریکہ میں پاکستانی ادبی تحریکوں اور منظرنامے کا حصہ رہے ہیں۔ وہ نیویارک میں قائم ادبی تنظیم حلقہ ارباب ذوق کے تنقیدی اجلاسوں اور مشاعروں میں برسوں سے سرگرم ہیں۔
امریکہ میں پاکستانی ادیبوں اور شعرا کی سرگرمیاں بھی اتنی ہی پرانی ہیں جتنی خود امریکہ میں پاکستانیوں کی اپنی امیگریشن یا نقل مکانی۔
امریکہ میں ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک، چاہے مڈ ویسٹ ہو، کہیں مشاعرے ہورہے ہیں، تو کہیں ادبی کانفرنسیں، کہیں ادبی تنقیدی نشستیں، تو کہیں کتابوں کی رونمائی، کہیں کتابیں لکھی جا رہی ہیں، کہیں کتب و جرائد چھاپے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں زمان و مکان ایسے بھی ہیں جہاں اردو سمیت کئی زبانوں کے تارکین وطن پاکستانی ادیبوں ، شاعروں اور ان کے پڑھنے اور سننے والوں نے دھوم مچا رکھی ہے۔ امریکہ پاکستانی نژاد اردو،، سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی، وخی، بروشسکی زبانوں کے شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد کا مسکن بھی ہے۔
حلقہ ارباب ذوق نیویارک اور حجرہ میر
جوہر میر پاکستان کے شہر پشاور میں اخبار مساوات کے نمائندہ تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے ملک پر مارشل لا نافذ کیا اور ملک بھر میں پریس کی آزادیوں پر قدغن لگا، تو جوہر میر بھی صحافیوں کی تحریک میں سرگرم ہوئے، اور وہ جیل بھی گئے تھے۔ پاکستان کے معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، اور اس وقت نظربند ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو سہالہ ریسٹ ہاؤس اسلام آباد سے رہا ہوکر جب کراچی میں اپنی رہائش گاہ ستر کلفٹن پہنچیں تو جوہر میر نے ان کی رہائی اور کراچی واپسی پر ایک نظم لکھی تھی جو پاکستان میں ان کے اخبار کے پہلے صفحے پر شائع ہوئی:
“اسلام آباد کے کوفے سے میں سندھ مدینے آئی ہوں ۔”
مارشل لاء حکومت میں اپنی تحریروں اور صحافتی سرگرمیوں کے خلاف قدغن کی وجہ سے جوہر میر 1980 کی دہائی میں جلاوطنی اختیار کرکے نیویارک پہنچے۔
نیویارک میں جوہر میر ایک ہوٹل میں ملازمت کرتے تھے اور اپنی ہفتہ وار چھٹی کو اپنے ہم خیال اہل وطن دوستوں کے ساتھ پرتکلف کھانوں کی محفلوں سے رونق بخشتے تھے۔ شعر و شاعری، ادبی و سیاسی بحث و مباحثے ہوتے، کبھی کبھار ان کی محفلوں میں پاکستان سے آئے ہوئے مہمان شاعر، ادیب و صحافی و سیاسی کارکن بھی شریک ہوتے۔
جوہر میر کا اپارٹمنٹ صحیح معنوں میں پاکستانی تارکین وطن ادیبوں، شعرا اور ادب دوستوں کا ایک مرکز تھا جسے حجرہ جوہر میر کہا جاتا تھا۔ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سیدہ دیپ بھی ان دنوں حجرہ جوہر میر کی شاموں میں شامل ہوتیں تھیں۔
انہی دوستوں کے ساتھ مل کر، جن میں لکھاری میاں اشرف ( جن کا کچھ عرصہ ہوا کہ کووڈ میں انتقال ہو گیا ہے) صوفی مشتاق، عتیق احمد صدیقی، ڈاکٹر شفیق و دیگر شامل تھے، جوہر میر نے 1990 کی دہائی میں نیویارک میں حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس جیکسن ہائیٹس کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں اور پھر مستقل طور ایک مقامی وکیل کے دفتر میں ہونے لگے۔
حلقہ ارباب ذوق نیویارک اور اس کے قرب و جوار کی ریاستوں میں بسنے والے ادیبوں ،شعرا اور ادب دوست خواتین و حضرات کے ملنے جلنے اور اپنی تخلیقات پیش کرنے کا مرکز بننے لگا۔ جوہر میر اور ان کے ساتھی حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم سے پاکستان سے معروف ادیبوں اور شعرا کو مدعو کرتے ۔ ان کیلئے جشن اور ان کے اعزاز میں شامیں منانے لگے۔ ان ادیبوں اور شعرا میں شوکت صدیقی، ضمیر جعفری، منو بھائی، احمد فراز، شکاگو سے افتی نسیم شامل تھے۔
جوہر میر نے حلقہ ارباب ذوق کی طرف سے ایک جریدہ “زاویہ” شائع کرنا شروع کیا جس کے خصوصی شماروں میں منٹو، ضمیر جعفری اور نورجہان پر شمارے شامل تھے۔
جوہر میر 2004 میں وفات پا گئے جب کہ حلقہ ارباب ذوق ان کی وفات کے بعد دو حصوں میں بٹ گیا مگر اس کے اجلاس باقاعدگی سے ہر پندرہ روز پر اتوار کو ہوتے رہتے ہیں۔ان ادبی تنقیدی نشستوں اور مشاعروں نے نئے لکھنے والے اور نئے شاعر بھی پیدا کیے ہیں جن میں اردو اور پنجابی کے شاعر ڈاکٹر ناصر گوندل، فرح کامران اور نعیم راٹھور کے نام شامل ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق کی طرف سے سالانہ بین الاقوامی مشاعرہ ہوتا ہے جب کہ حلقے کی جانب سے ایک ادبی جریدہ “نئی بستی” بھی سالانہ شائع ہوتا ہے جس میں حلقے کے اجلاسوں میں پیش کی گئی منتخب تخلیقات شامل ہوتی ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق نیویارک نے سعادت حسن منٹو اور اردو کے یگانہ روزگار شاعر میرا جی کی صد سالہ سالگرہ کے جشن پر تین روزہ کانفرنسیں بھی منعقد کیں۔ حلقہ کی پندرہ روزہ نشستوں میں چلی کے شاعر پابلو نرودا، کولمبیا کے ناول نگار گارشیا مارکیز اور شام کے شاعر نذار قبانی پر بھی خصوصی مقالے پڑھے گئے۔
علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن
سید علی نقوی جو تین نثری تحقیقی کتب اور شاعری کے ایک مجموعے کے مصنف ہیں۔ علی گڑھ یونیوسٹی کے المنائی یا سابق طالب علم ہیں ۔وہ کئی دہائیوں سے نیویارک میں مقیم ہیں۔
امروہہ سے تعلق رکھنے والے سید علی نقوی علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ انجنیئرنگ کے وہ طالب علم تھے جنہیں اس وقت جیل میں ڈال دیا گیا تھا جب بھارت کو تقسیم ہوئے ابھی تین سال ہوئے تھے۔ وہ اپنے علی گڑھ کے ساتھیوں کے ساتھ مل مزدوروں کی ہڑتال کی حمایت کررہے تھے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے پاکستان کی شہریت اختیار کی۔
نیویارک میں اب وہ کئی برسوں سے علی گڑھ یونیورسٹی کی المنائی ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ خود شاعر ہیں اور اس کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ وہ آج کل علامہ اقبال، غالب اور سر سید پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ جب کہ انہوں نےایک کتاب دریائے سندھ اور سماجی تبدیلی پر، دوسری کتاب اپنے کزن اور مشہور عالم مصور صادقین کی شخصیت اور فن پر لکھی ہے، جنہیں پاکستان کا پکاسو کہا جاتا ہے، ۔ ان کی ایک بیٹی منیزہ نقوی انگریزی ادب کی مصنفہ و ناول نگار ہیں۔
یہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ تھے جنہوں نے 1970 کی دہائی میں سب سے پہلے واشنگٹن ڈی سی میں علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ مجھ سے اپنی بات چیت میں انہوں نے بتایا علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کے قیام کا ایک مقصد ہندو،مسلم، سکھ،عیسائی و دیگر کمیونٹیز کے شعراء اور ادیبوں کو ایک ہی چھت تلے جمع کرنا تھا۔
وہ کہتے ہیں “سیاسی اور جفرافیائی سرحدیں تو ہم نہیں مٹا سکتے مگر ادبی سرحدیں تو مٹا سکتے ہیں۔”
علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن واشنگٹن ڈی سی کے سالانہ مشاعرے گزشتہ 42 سال سے متواتر ہو رہے ہیں سوائے کووڈ کے پھیلاؤ کے برسوں کے۔
اسی طرح علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کے مشاعرے ہیوسٹن میں پرویز جعفری اور ان کی اہلیہ شاعرہ عشرت آفرین، نیویارک میں طاہرہ حسین کی سرکردگی میں اور شکاگو میں بھی منعقد ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ظفر زیدی میموریل کمیٹی، اردو مرکز، کارروان فکرو فن، سوسائٹی آف اردو لٹریچر یوا یس اے (سول)، لٹریری فورم آف نارتھ امریکہ، اے۔ ایس۔وائے یعنی الف سے ی، اور شاعری گروپ اردو زبان کی ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
اپنا کے مشاعرے
پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی معروف نمائندہ تنظیم “اپنا” ہر سال جولائی میں اپنے سالانہ کنونشن کے موقع پر مشاعرہ بھی منعقد کرواتی ہے۔ اس مشاعرے میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے اردو کے شعراء شریک ہوتے ہیں۔
امریکہ میں دیگر پاکستانی زبانوں کا ادبی منظر نامہ
پنجابی ادب:
جب ذکر ہوگا امریکہ میں پاکستانی پنجابی ادب و شاعری کا تو ذہن میں سب سے پہلا نام ڈاکٹر منظور اعجاز کا آئے گا۔ ڈاکٹر منظور اعجاز وہ پنجابی مصنف، محقق و دانشور ہیں جنہوں نے پنجابی زبان و ادب کا الاؤ روشن کیا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ اور نام آتے ہیں سفیر رامے اور جاوید بوٹا کے۔
ڈاکٹر منظوراعجاز اور سفیر رامے نے” اپنا” کے نام سے تنظیم قائم کی جس کے بینر تلے بڑے عرصے تک، امریکہ میں عالمی پنجابی کانفرنسیں امریکہ کی مشہور و ممتاز یونیورسٹیوں میں بھی منعقد کی جاتی رہی ہیں۔
ڈاکٹر منظور اعجاز نے گورمکھی اور شاہ مکھی پنجابی اسکرپٹ سمیت کثیر اللسانی ویب سائٹ “وچار” قائم کی ، جہاں پنجابی ادب انگریزی اور سندھی میں اور سندھی ادب پنجابی میں ترجمہ ہوکر شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر منظور اعجاز نے پنجابی زبان میں میلوہا یونیورسٹی آن لائن قائم کی ہے۔ میلوہا یونیورسٹی کی باقاعدہ کلاسیں چلتی ہیں ،جن میں پنجابی زبان و ادب کے علاوہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی ماسٹرز کلاسیں بھی پنجابی میں پڑھائی جاتی ہیں جب کہ معروف ناول نگار و صحافی محمد حنیف تخلیقی ادب پڑھاتے ہیں۔
سفیر رامے نے “اپنا” کے نام سے پنجابی زبان کی ایک ویب سائٹ شروع کی ہوئی ہے۔اس ویب سائٹ پر ادب،زبان،تاریخ، کلاسیکی و جدید شاعری، فلم ،موسیقی کے موضوعات پر مواد موجود ہے۔
بوسٹن میں پنجابی زبان کے جدید شاعر عرفان ملک نے شاعری،ادب اور ڈرامے کی تربیتی ورکشاپس متعارف کرائی ہیں۔ عرفان ملک نے ہسپانوی شاعر اور ڈرامہ نگار گارشیا لورکا کے تھیٹر کو بھی اسٹیج کیا ہے۔
سندھی ادب
شاعری سندھی زندگی کا نہ ٹوٹنے والا جز ہے ۔ امریکہ پہنچنے والے تارکین وطن سندھیوں میں زیادہ تر متوسط طبقے کے پڑھے لکھے لیکن کسی طرح سیاسی اور ادبی مزاج والے لوگ شامل رہے ہیں۔ سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کے ایک بانی رکن ڈاکٹر فیروز احمد خود سماجی سائنس دان اور دانشور تھے۔ فیروز احمد امریکہ میں اعلیٰ پائے کی اس بائیں بازو کی تین مورتی کا حصہ تھے جو پاکستان کے معروف دانشور اقبال احمد اور بھارت کے اعجاز احمد پر مشتمل تھی۔
1990 کی دہائی میں سندھ کے معروف مصور اور تعلیم دان دارا ابڑو اور ان کا بیٹا زاہد دارا ابڑو باالمعروف جانی ابڑو نیوجرسی میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ جانی ابڑو جدید سندھی شاعری میں نئے رجحان متعارف کروانے والے نوجوان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔
رعنا شفیق صدیقی بھی جدید سندھی کی شاعرہ ہیں اور سینیٹ لوئیس میں مقیم ہیں ۔ اسی طرح سندھی زبان کے موجودہ دور میں اساتذہ شعراء میں سے عبدالغفار تبسم بھی ہیوسٹن میں آباد ہیں۔ جن کا شمار بہت ہی مقبول شعراء میں ہوتا ہے۔ جب کہ سندھی و اردو کے افسانہ نگار اور شاعر آغا پیر محمد باالمعروف کیلاش کنیکٹیکٹ میں ہیں۔ سندھی زبان، ادب و صحافت کو سائبر ایج میں داخل کرنے والے عبدالماجد بھرگڑی ریاست ایریزونا میں رہتے ہیں۔
شمالی پاکستانی زبانوں کا ادب
“دا یزووے مولنگی ویر زریشک
دل پودشوہی بی وزیر زریشک”
یہ وخی زبان میں شعر کی سطریں نیویارک میں رہنے والے شاعر نور پامیری کی ہیں جن کا مطلب ہے کہ “دل ایک بادشاہ بے وزیر (بے تدبیر) کی طرح گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔”
نور پامیری کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ کی گوجال وادی سے ہے۔ نور پامیری کی مادری زبان وخی ہے جو وادی ہنزہ کے علاوہ تاجکستان تک میں بولی جاتی ہے۔ نور پامیری اور ان کے ہم زبان احباب آپس میں جب بھی ملتے ہیں تو وخی زبان میں شعر و ادب کی محفلیں لگتی ہیں۔
وخی زبان بولنے والی خاتون حوسنیا، وخی زبان کی کہانی کار ہیں۔ پامیری زبانوں کے ادب کے سلسلے میں ایک باتصویر کتاب “پامیری اسٹوریز” یا “پامیری کہانیاں” زیر خطرہ زبانوں کے اتحاد یا انڈینجرڈ لینگوئیجز الائنس کی طرف سے امریکہ میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں حوسنیا کی دو کہانیاں بھی شامل ہیں۔
شاہد اختر قلندر بروشسکی زبان کے مقبول شاعر ہیں جو آرکنساس کے شہر لٹل راک میں رہتے ہیں
پشتو ادب
“خیبر سوسائٹی” امریکہ میں بسنے والے پشتونوں کی نمائندہ سماجی اور ثقافتی تنظیم ہے اور بڑی بڑی موسیقی و ثقافتی محفلیں منظم کرتی رہتی ہے ۔ خیبر سوسائٹی کے بانی ڈاکٹر رفیق جان ابتدائی پاکستانی تارکین وطن میں سے تھے جو نیویارک میں آ کر بسے تھے۔ ڈاکٹر رفیق جان نے شاعر ڈاکٹر شفیق کے ساتھ مل کر خیبر سوسائٹی کی طرف سے اردو اور پشتو مشاعرے کروائے ہیں جن میں احمد فراز کے ساتھ شامیں بھی شامل ہیں۔
پاکستانی ادب کا مستقبل
امریکہ میں پاکستانی ادب کے منظرنامے پر جہاں احمد مشتاق، سرمد صہبائی اور ستیہ پال آنند، نون میم دانش، عشرت آفرین اور ثروت زہرہ جیسے شعرا ء اور ڈاکٹر منظور اعجاز جیسے دانشور نظر آتے ہیں ، وہاں سب کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ نئی پود تو اردو سمیت اپنی مادری زبانیں پڑھتی لکھتی نہیں تو پاکستانی زبانوں اور ادب کا مستقبل کتنا روشن ہے؟ شاعر و فکشن نگار سعید نقوی اس تگ و دود کو یا خون جگر سے چراغ سحری جلانے کو شوق جنون کہتے ہیں۔
حسن مجتبی ایوارڈ یافتہ کثیراللسانی صحافی اور لکھاری ہیں۔ اردو، سندھی، انگریزی اور پنجابی زبانوں میں لکھتے رہے ہیں۔ وہ انگریزی جریدہ “نیوز لائن” اور بی بی سی اردو سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے روزنامہ “جنگ،” ڈی ڈبلیو اردو، پنجابی ویب سائٹ وچار ڈاٹ کام اورکئی سندھی اخبارات کیلئے باقاعدگی سے لکھا ہے۔ بلوچی ٹی وی چینل " وش" کے مستقل تجزیہ نگار رہے ہیں۔ اس وقت وہ نیا دور، فرائیڈے ٹائمر اور ڈیسنٹ کیلئے تحقیقی فیچرز اور مضامین لکھتے ہیں۔