سابق صدر اور پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ خصوصی عدالت نے جلدی میں فیصلہ سنایا ہے۔ لہذا، اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے درخواست میں پیرا 66 پر اعتراض کیا جبکہ اسے حذف کرنے کی استدعا کی۔
درخواست میں سابق صدر کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ خصوصی عدالت نے جلدی میں فیصلہ سنایا ہے۔ لہذا، خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پرویز مشرف کی طرف سے اس معاملے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والے اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے میں تعصب نظر آرہا ہے۔ خصوصی عدالت کی تشکیل پہلے ہی عدالت میں زیر سماعت تھی اور یہ فیصلہ سنا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر دائرہ اختیار سے متعلق معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج ہو چکا تھا۔ چیف جسٹس اور ہائی کورٹ کے جج میں فرق ہے۔ اس معاملے میں جج تعینات کرنے کا کہا گیا تھا، جبکہ وقار سیٹھ چیف جسٹس تھے۔
انہوں نے کہا کہ 2007 سے 2013 تک یہ معاملہ خاموش رہا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 میں سپریم کورٹ میں اس حوالے سے کیس دائر کرنے کا کہا۔
اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ہائی کورٹ کے جج تعینات ہونا تھے، لیکن ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کو بینچ میں شامل کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا دعویٰ تھا کہ وفاقی حکومت، کابینہ اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے کہنے پر اس وقت کے سیکریٹری ناصر کھوسہ کے ذریعے اس کیس کی سماعت شروع ہوئی جو سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بھائی تھے۔
ان کے بقول، عدالت نے شریک ملزمان کو شامل کرنے کا کہا جبکہ پیرا 66 میں دیا گیا فیصلہ مذہبی روایات اور قانون کے خلاف ہے۔ قانون کہتا ہے کہ ایسا کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا جو مذہب اور قانون سے متصادم ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں بغض اور عداوت نمایاں طور پر نظر آ رہی ہے، جس کی وجہ سے ہم نے اس معاملے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اگر کوئی غداری یا بغاوت بنتی تھی تو وہ 1999 ہو سکتی تھی، لیکن اس کو بھی پارلیمان نے تحفظ دے دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسا معاملہ جو وقوع پذیر ہونے کے چھ سال بعد عدالت میں لایا جائے اس میں صرف اور صرف نواز شریف کی 1999 کی نفرت اور بغض ہے جس کی وجہ سے یہ کیس دائر کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ رواں ماہ 17دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔
تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرکے سزائے موت پر عمل درآمد کرائیں۔
فیصلے کے پیرا 66 میں کہا گیا تھا کہ اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹ کر لایا جائے اور 3 دن تک ان کی لاش وہاں لٹکائی جائے۔
اس فیصلے پر پاکستان کی فوج کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ بعد میں حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔