بھارت: چلتی ٹرین میں ٹارگٹ کلنگ، 'نفرت کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے'

فائل فوٹو

بھارت میں چلتی ٹرین میں ایک پولیس اہل کار اور تین مسلمان مسافروں کے قتل پر عوامی اور سماجی حلقوں نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ریلوے پروٹیکشن فورس (آر پی ایف) کا ایک اہل کار چلتی ٹرین میں دیگر مسافروں کو متنبہ کر رہا ہے جب کہ ٹرین کے فرش پر خون آلود لاش پڑی ہے۔ اس کو یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ "یہ لوگ پاکستان سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ اگر تم کو بھارت میں رہنا اور ووٹ دینا ہے تو مودی اور یوگی کو دینا ہوگا۔"

پولیس کے مطابق یہ واقعہ پیر کی صبح اس وقت پیش آیا جب جے پور سے ممبئی جانے والی ٹرین ریاست مہاراشٹر میں پال گھر کے قریب سے گزر رہی تھی۔

ریلوے فورس کے اہل کار کا نام چیتن سنگھ بتایا جا رہا ہے جس نے اپنے سرکاری اسلحے سے اپنے سینئر اسسٹنٹ سب انسپکٹر ٹیکا رام مینا اور تین مسافروں کو گولی مار کر ہلاک کیا۔

ہلاک ہونے والے تینوں مسافر مسلمان ہیں۔ ان کے نام عبد القادر بھائی محمد حسین بھانپور والا، اختر عباس علی اور صدر محمد حسین ہیں۔

واردات کے بعد سیکیورٹی اہل کار بوری ولی کے نزدیک زنجیر کھینچ کر ٹرین کو روکتا ہے اور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔

SEE ALSO: بھارت: ہندو مسلم فسادات میں امام مسجد سمیت پانچ افراد ہلاک، مسجد نذرِ آتش

سینئر افسر سے تلخ کلامی

میڈیا رپورٹس کے مطابق فائرنگ سے قبل چیتن سنگھ کی ٹیکا رام مینا سے کچھ تلخ کلامی ہوئی تھی۔ وہ انہیں گولی مارنے کے بعد کئی ڈبوں میں جاتا ہے اور تین مسافروں کو مبینہ طور پر ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے گولی مار دیتا ہے۔

ابتدائی رپورٹس میں بتایا گیا کہ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ اسے مشتعل مزاج بھی بتایا گیا۔ لیکن بعد میں محکمہ ریلوے کے ذرائع سے میڈیا میں آنے والی خبروں میں کہا گیا کہ اس کے سروس ریکارڈ سے ان باتوں کی تصدیق نہیں ہوتی۔

'ویڈیو کی تحقیقات جاری ہیں'

گورنمنٹ ریلوے پولیس (جی آر پی) کمشنر رویندر شسوا کے مطابق اس سلسلے میں وائرل ہونے والی مبینہ ویڈیو کی جس میں وہ شخص اپنے عمل کو جائز ٹھہرا رہا ہے، تحقیقات کی جا رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس بارے میں سرِدست کوئی نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہو گا۔ اس تعلق سے ابھی کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی تفصیل شیئر کی جا سکتی ہے۔

اس قتل کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست احتجاج ہو رہا ہے۔ حزبِ اختلاف نے اسے نفرت پر مبنی مبینہ سیاست کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

'ںفرت کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے'

کانگریس پارٹی کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے اسے وحشیانہ قتل بتایا ہے اور ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ نفرت کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ اسے واپس بوتل میں بند کرنے کے لیے کافی جدوجہد کرنا ہوگی۔

کانگریس کی سوشل میڈیا سربراہ سپریہ شرینیت اور دیگر رہنماؤں نے قتل کے اس واقعے کے لیے ملک کی موجودہ سیاست کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق موجودہ سیاست نے ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اسے 'دہشت گرد' کارروائی قرار دیا ہے۔

ان کے مطابق مسلم مخالف ہیٹ اسپیچ اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس پر قدغن نہ لگانے کی وجہ سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔


مبصرین بھی اس قتل کے لیے ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار رویندر کمار کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی جانب سے عوام کی توجہ منی پور نسلی فساد اور ملک کو درپیش مسائل سے ہٹانا ہے اور دوسرے کام کا سازگار ماحول نہ ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز میں پائی جانے والی مایوسی ہے۔

'ملک نفرت کی آگ میں جھلس رہا ہے'

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مذہب کے نام پر جو نفرت انگیز سیاست کی جا رہی ہے اس نے عوام کے بڑے طبقے کے ذہنوں کو زہر آلود کر دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سیکیورٹی اہل کار جرم کرنے کے وقت پاکستان کا نام نہ لیتا اور نہ ہی یہ کہتا کہ مودی اور یوگی کو ووٹ دینا ہے۔

ایک اور تجزیہ کار اشوک وانکھیڑے کا کہنا ہے کہ یہ وحشیانہ قتل کا صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ بتاتا ہے کہ ملک نفرت کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا صرف الیکشن جیتنے اور اقتدار میں رہنے کی خاطر ملک کو تباہی کی طرف لے جانا درست ہے۔

مسلم تنظیموں نے بھی ٹرین میں مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کی ہے اور اس رجحان کو ملک کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت اور حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے اپوزیشن اور تجزیہ کاروں کی نفرت انگیزی کی سیاست کے الزام کی تردید کی جاتی ہے۔

جماعت اسلامی ہند کی سیاسی تنظیم ’ویلفئیر پارٹی آف انڈیا‘ نے ٹرین میں مسلمانوں کی ہلاکت اور نوح کے فساد کی مذمت کی ہے اور حکومت سے قانون کے مطابق کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دیگر مسلم تنظیموں نے بھی مسلم مخالف واقعات میں اضافے پر تشویش ظاہر کی اور ان کی مذمت کی ہے۔

SEE ALSO: تحریکِ عدم اعتماد؛ وزیر اعظم مودی کو اکثریت حاصل ہونے کے باوجود کیا سیاسی چیلنجز ہیں؟

رویندر کمار کے خیال میں بی جے پی اور آر ایس ایس میں 2024 کے عام انتخابات میں متوقع شکست کا خوف پایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مسلم مخالف واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کے اندرونی سروے بتاتے ہیں کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے جیتنے کے امکانات کم ہیں۔ اس وجہ سے بقول ان کے بی جے پی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

تجزیہ کار اشوک وانکھیڑے بھی مسلم مخالف تشدد میں اضافے کی وجہ ملک کا موجودہ ماحول قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ہندو مسلم منافرت میں اضافہ ہی بی جے پی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس لیے آگے چل کر اگر ایسے اور واقعات ہوتے ہیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

یاد رہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ اور دیگر وزرا اور بی جے پی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ 2024 میں بھی مودی حکومت واپس آئے گی اور اسے پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل ہوں گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں ایک تقریر میں کہا تھا کہ وہ جب تیسری مدت کی حکومت بنائیں گے تو بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہو جائے گا۔