|
قومی اسمبلی نے جمعے کو فنانس بل 2025 کی منظوری دے دی یے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھاری ٹیکسز کے باعث جہاں اس فنانس بل کی منظوری سے مہنگائی میں اضافے کے خدشات موجود ہیں تو وہیں اس کی منظوری آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام طے کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
اٹھارہ ہزار 877 ارب روپے کے مجموعی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف 12 ہزار 970 ارب روپے رکھا گیا ہے جو رواں سال کے بجٹ میں عائد ٹیکسز سے 40 فی صد زیادہ ہے۔ جب کہ حکومت نے نان ٹیکس ریونیو کی مد میں بھی چار ہزار 845 ارب روپے آمدن کا تخمینہ رکھا ہے۔
بجٹ پر دو ہفتوں سے زائد قومی اسمبلی میں جاری رہنے والی بحث میں نہ صرف حزبِ اختلاف بلکہ خود حکومتی بینچز سے بھی وفاقی وزیرِ خزانہ اور حکومت کی معاشی ٹیم پر کھل کر تنقید کی گئی۔
ٹیکسز کی شرح کو کم کرنے کے ساتھ بعض اشیا پر ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی مخالفت بھی سامنے آئی۔
تاہم وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے محصولات میں اضافے کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے اور اس سے مستقبل میں مزید بہتری آئے گی۔
دوسری جانب ارکانِ اسمبلی کی جانب سے پیش کردہ بعض ترامیم کو فنانس بل کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس میں کارڈیو ویسکولر سرجری کے آلات پر ٹیکس سے استثنیٰ، خیراتی اسپتالوں کی جانب سے درآمدات اور مقامی خریداری پر ٹیکس سے استثنیٰ شامل ہیں۔
اساتذہ اور محققین کے لیے 25 فی صد ٹیکس چھوٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کے لیے کم ٹیکس ریٹ کو برقرار رکھا گیا ہے۔
اس طرح وہ ہائبرڈ گاڑیاں جن کے انجن کی صلاحیت 1800 سی سی تک ہے کو آٹھ اعشاریہ 5 فی صد اور اس سے اوپر کی صلاحیت والے انجنز کی حامل گاڑیوں پر 12 اعشاریہ 75 فی صد ٹیکس ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح سیمنٹ پر فیڈرل ایکسپائر ڈیوٹی تین روپے فی کلو سے بڑھا کر چار روپے فی کلو کردی گئی ہے۔ جب کہ سابقہ وفاقی و صوبائی قبائلی علاقوں کو سیلز ٹیکس کی مد میں ایک سال مزید استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔
تاہم حکومت نے سخت مخالفت کے باوجود برآمد کنندگان پر ایک فی صد ٹیکس کے بجائے نارمل کارپوریٹ ٹیکس عائد کرنے کا اپنا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
برانڈڈ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا کر 18 فی صد کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب جائیدادوں پر بھی کیپیٹل گیں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔
بجٹ کے ابتدائی اجلاس کے دوران علامتی بائیکاٹ کرنے والی حکومت کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی فنانس بل کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بجٹ تجاویز کے خلاف ووٹ دیا جس پر کثرت رائے پر شق وار فنانس بل منظور کیا گیا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ نئے قرض پروگرام پر آئی ایم ایف کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے بل کی منظوری ضروری تھی۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے حکومت کو تجویز کیا تھا کہ سینکڑوں اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے تاکہ حکومت کی آمدنی بڑھے اور اس طرح حکومت کو بجٹ خسارہ کم کرنے میں مدد ملے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے آئندہ سال بجٹ خسارے میں جی ڈی پی کے 1 اعشاریہ 5 فی صد کمی کر کے اسے پانچ اعشاریہ 9 فی صد پر لانے کا تخمینہ رکھا ہے اور اسی بنا پر حکومت نے ٹیکس کی شرح میں بڑا اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بڑی اصلاحی تبدیلی کے بغیر پیش کیا جانے والا یہ بجٹ مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے گا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بجٹ میں حکومت نے وہ آمدنی بھی ظاہر کی ہے جو اسے امید ہے کہ سرکاری اداروں کی نجکاری سے مل پائے گی۔
عبدالعظیم کے مطابق نجکاری کا عمل تیز کیا جانا بھی فنڈ کے مطالبات میں سے ایک ہے تاکہ خسارے میں چلنے والے اداروں و پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جا سکے۔
ایک اور ماہر معاشیات زاہد حبیب کا بھی کہنا ہے کہ بجٹ منظور ہونے کا عمل، بین الاقوامی قرض دہندہ سے نئی قرض کی راہ ہموار کرنے میں اہم قدم ثابت ہو گا اور اس وقت حکومت کے لیے قرض نادہندگی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض پروگرام میں شمولیت ضروری ہے۔