ایک اور پاکستانی خاتون کا کارنامہ، نائلہ کیانی نے بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ سر کر لی

وہ ایسی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما بن گئی ہیں جنھوں نے 8 ہزار میٹر سے زائد بلند پانچ چوٹیوں کو سر کیا ہو۔

کوہ پیما نائلہ کیانی نے دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی 'ماونٹ ایورسٹ' کو سر کر لیا ہے۔ وہ دوسری پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔

الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق اتوار کی صبح 8848 میٹر بلند ترین چوٹی کو سر کرنے کے بعد وہ ایسی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما بن گئی ہیں جنہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند پانچ چوٹیوں کو سر کیا ہو۔

اس سے قبل کلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے ماؤنٹ ایورسٹ کو 2013 میں سر کر کے پہلی پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

نائلہ کیانی کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں۔2017 میں نائلہ کیانی نے اپنی شادی کا فوٹو شوٹ کے ٹو کے بیس کیمپ منعقد کیا تھا۔ یہ فوٹو بعد میں سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی تھیں۔ 2021 میں اپنی بیٹی کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی انہوں نے 8035 میٹر بلند کاشربروم ٹو سر کرنے کے بعد لوگوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے بتایا کہ نائلہ بہت ہی با ہمت خاتون ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ دنیا کی تمام آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیوں کو جلد از جلد سر کرنا چاہتی ہیں۔

ان کے بقول انہوں نے 2021 میں 8035 میٹر بلند گاشر برم ٹو، جولائی 2022 میں 8068 میٹر بلند گاشربرم ون اور اس کے فوری بعد کے ٹو اور 8091 میٹر بلند اناپورنا کو سر کیا۔

کرار حیدری کے مطابق نائلہ کیانی کے علاوہ معروف پاکستانی کوہ پیما ساجد سدپارہ اور برٹش پاکستانی نادیہ آزاد نے بھی ماؤنٹ ایورسٹ کو آج ہی سر کیا ہے۔

ساجد سدپارہ نے آکسیجن کے استعمال کیے بغیر ایورسٹ کو سر کیا۔

واضح رہے کہ 2021 میں گاشربرم ٹو سر کرنے کے بعد نائلہ کیانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ انہیں بچپن سے ہی کوہ پیمائی کا شوق تھا۔ تاہم میدانی علاقے سے تعلق یہ شوق ان کی راہ میں حائل رہا لیکن کے ٹو کے بیس کیمپ پر شادی کے فوٹو شوٹ نے انہیں ہمت دی جس کے بعد انہوں نے باضابطہ طور پر اس فیلڈ میں آنے کا فیصلہ کیا۔

نائلہ کے مطابق گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کوہ پیمائی میدانی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی نسبت زیادہ آسان ہے کیوں کہ ایک تو وہ پہلے سے ہی دیگر علاقوں کی نسبت سطح سمندر سے اوپر رہائش پذیر ہو رہے ہوتے ہیں اور ان کا آکسیجن لیول دیگر افراد کی نسب زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ دوسرا وہ بچپن سے ہی کوہ پیمائی کرنے والے افراد کو دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھار روزگار کی تلاش میں پورٹر کا کام بھی کرتے ہیں۔

نائلہ کیانی نے اپنی پہلی ہی کوشش میں 2021 میں 8035 میٹر بلند کاشر برم ٹو جب کہ 2022 میں گاشر برم ون اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کیا تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ کوہ پیما کمیونٹی کے لیے بھی حیرانگی کا باعث تھا۔

ان کے مطابق کے ٹو شروع سے لے کر آخر تک بہت زیادہ اسٹیپ ہے۔ وہاں پر ریسٹ کر کے پانی پینے کے لیے بھی جگہ نہیں ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ راک فال بہت زیادہ ہوتی ہے۔

نائلہ کیانی نے بتایا تھا کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں۔ وہ کوہ پیمائی کے علاوہ باکسنگ، ٹریکنگ کا بھی شوق رکھتی ہیں۔

گزشتہ سال کے ٹو کے باٹل نک پر کھڑے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ جب کے ٹو کے پاس باٹل نیک کے پاس لوگوں کی قطار بنی ہوئی تھی اور سب بلیو آئس پر کھڑے تھے تو ایک خوف اچانک سے آیا کہ کیا ہو گا اگر وہ واپس اپنی بیٹیوں کے پاس نہیں گئیں؟ لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنی توجہ بدلی۔