محمد ثاقب
اس بات کا انکشاف نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کیس میں انکوائری کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ثنااللہ عباسی کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کو بادی النظر میں ایک جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ کو تین جنوری 2018 کو حضرت علی اور قاسم کے ساتھ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر چائے کے ہوٹل سے اٹھایا گیا۔ راؤ انوار کی ٹیم نےنقیب اللہ ،حضرت علی اور قاسم کو بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ حضرت علی اور قاسم کو 6 جنوری کو چھوڑ دیا گیا لیکن نقیب اللہ کو طے شدہ مقابلے میں13جنوری کو قتل کردیا گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نقیب اللہ دہشت گرد نہیں بلکہ سوشل میڈیا پروفائل سے پتا چلتا ہے کہ وہ آزاد خیال نوجوان تھا۔ وہ محبت کرنے والا, ماڈلنگ کا شوقین شخص تھا۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ایس ایس پی راؤانوار اور اس کے ساتھی جان بوجھ کر تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو پیش نہیں ہوئے یہ قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کے مترادف ہے۔
وائس آف امریکہ کو ملنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راؤانوار نے جعلی دستاویزات پر ملک سے فرار ہونے کی بھی کوشش کی جس کی تصدیق ایف آئی اے نے بھی کی ہے۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اس جعلی مقابلے کے عینی شاہدین میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی ثنااللہ عباسی نے رپورٹ میں قراردیاہے کہ راؤانوار نے 2011 سے 2018 تک 745 پولیس مقابلے کئے۔ ان مقابلوں میں صرف 89 ملزم گرفتار ہوئے لیکن مارے جانے والوں کی تعداد 444 ہے۔ یہ ہلاکتیں 192مقابلوں میں ہوئیں جبکہ 553 مقابلوں میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی ملزم گرفتار ہوسکا۔
راؤانوار کی قیادت میں پولیس پارٹی نے 2017 میں 93 مقابلے کئے جن میں 110ملزمان ہلاک ہوئے۔
سپریم کورٹ میں جمع ہونے والی نقیب اللہ محسود قتل کی تحقیقات میں مزید انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔ مقابلے میں مارے گئے چاروں افراد افراد کے بے گناہ ہونے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جعلی مقابلے میں نقیب اللہ، نذر جان، محمد اسحاق اور محمد صابر کو قتل کیا گیا۔ چاروں افراد کے خلاف صوبہ سندھ کے کسی تھانے میں کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں مل سکا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیابے کہ ضلع بہاولپور کے رہائشی محمد اسحاق کے خلاف کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں مل سکا۔ تحصیل احمد پور کے رہائشی محمد صابر کا بھی سندھ میں کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں۔ دوسری جانب جنوبی وزیرستان کے نقیب اللہ محسود اور نذر جان کا بھی کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں پایا گیا۔
مقابلے میں مارے گئے چاروں افراد کے کرمنل ریکارڈ کے لیے سندھ بھر کے تمام ڈی آئی جیز کو خطوط لکھے گئے تھے۔ لیکن سندھ کے کسی زون میں کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ملا۔
اس کے برخلاف ایس ایس پی راؤ انوار نے چاروں افراد کو کالعدم لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے کمانڈز قرار دیا تھا۔ راؤ انوار نے ان ملزمان کو ائیر پورٹ، پی این ایس مہران ودیگر سنگین دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ایس ایس پی راؤ انوار کو آئندہ سماعت پر گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ کیس میں اب تک 6 ملزمان پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہےجنہیں انسداد دہشتگردی منتظم عدالت نے 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔