سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی پولیس کے افسر اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دیا ہے جس پر وزارتِ داخلہ نے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کرلیا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے حکام نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔
راؤ انوار پر کراچی میں رواں ماہ ایک قبائلی نوجوان کے ماورائے عدالت قتل کا الزام ہے جس پر ان کے خلاف محکمانہ تحقیقات جاری ہیں۔
عدالتی معمول اور روایات سے ہٹ کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے منگل کو قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کے از خود نوٹس کی سماعت کی۔
اس معاملے کی سماعت کے لیے 27 جنوری کی تاریخ مقرر تھی تاہم کمرۂ عدالت میں چیف جسٹس نے اچانک اس کیس کی سماعت شروع کردی۔
جس وقت اس کیس کی سماعت ہوئی اس وقت چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ معمول کے مقدمات کی سماعت کررہا تھا۔
عدالت نے نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت میں نامزد مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ کو حکم دیا کہ راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا جائے۔
عدالت نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور کیس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے ارکان کو بھی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 27 جنوری تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کی اگلی سماعت کراچی رجسٹری میں ہوگی۔
عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج راؤ انوار نے بیرونِ ملک فرار کی کوشش کی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ایسی ہی اطلاعات آئی ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزارتِ داخلہ کو فوری طور پر زبانی آگاہ کریں اور بعد میں تحریری احکامات بھی دے دیے جائیں کہ راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے۔
اس سے قبل اطلاعات تھیں کہ راؤ انوار نے منگل کی صبح اسلام آباد سے دبئی فرار ہونے کی کوشش کی تھی جسے ایف آئی اے حکام نے ناکام بنادیا تھا۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے مطابق کراچی پولیس کے ایس ایس پی راؤ انوار اسلام آباد ہوائی اڈے سے ایک بین الاقوامی پرواز کے ذریعے دبئی جا رہے تھے کہ اُنھیں امیگریشن ڈیسک پر روک لیا گیا۔
نقیب اللہ کے قتل کے بعد راؤ انوار کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور پولیس کی ایک تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے پیر کو راؤ انوار کو تحقیقات کے لیے طلب کیا تھا تاہم اُنھوں نے اس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کرتے ہوئے اطلاعات کے مطابق کہا تھا کہ اُنھیں کمیٹی سے انصاف کی توقع نہیں اس لیے وہ اس کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔
راؤ انوار نے 13 جنوری کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں چار مبینہ دہشت گردوں کو شاہ لطیف کے علاقے میں ایک پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں نسیم اللہ عرف نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
مقتول کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ نقیب اللہ 3 جنوری کو سہراب گوٹھ کے علاقے سے لاپتا ہوا جسے بعد ازاں جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔
نقیب اللہ کے قتل کی خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد نہ صرف سماجی میڈیا پر اس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی بلکہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ سول سوسائٹی کی طرف سے بھی اس معاملے کی غیر جانب دارانہ تحققات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی نقیب اللہ محسود کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکت کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبہ سندھ کی پولیس کے سربراہ سے سات دن کے اندر رپورٹ طلب کی تھی۔
ستائیس سالہ نقیب اللہ کا تعلق ملک کے قبائلی علاقے جنوبی وزیر ستان سے تھا، اور راؤ انوار کا دعویٰ ہے کہ نقیب اللہ کا تعلق بعض شدت پسندوں سے تھا۔
لیکن نقیب اللہ کے خاندان کے افراد اور بعض دوست اس کے دہشت گردوں سے مبینہ تعلق کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
نقیب اللہ کے مبینہ قتل کے واقعے کی بازگشت گزشتہ ہفتے پاکستان کی پارلیمان کی ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی جہاں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے وزارت برائے انسانی حقوق سے اس واقعے پر رپورٹ طلب کی ہے۔
حالیہ برسوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکڑوں مبینہ دہشت گردوں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں ان میں سے زیادہ تر واقعات کو 'جعلی پولیس مقابلے‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مکمل چھان بین کا مطالبہ کرتی آئی ہیں تاکہ حقائق کو سامنے لایا جا سکے۔