نیٹو 2003 سے افغانستان میں کارروائیاں کر رہی ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے اختیار کے تحت کام کرنے والی انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس یا ایساف میں اتحادی ملکوں کے سپاہیوں کی کل تعداد 1,30,000 سے زیادہ ہے ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو کے تین اہداف ہیں۔ پہلا تو یہ کہ ملک کی تعمیرِ نو اور اسے مستحکم کرنے میں افغان حکومت کی مدد کرنا، دوسرا یہ کہ افغان فوج اور پولیس کو تربیت دینا، اور تیسرا یہ کہ جنوبی افغانستان میں باغیوں کا پتہ چلانا اور ان کا صفایا کرنا۔ جنوبی افغانستان طالبان کا اصل گھر ہے جہاں 2001 میں امریکہ کی قیادت میں اتحاد نے ان کا تختہ الٹ دیا تھا۔
ایساف میں سب سے زیادہ تعداد یعنی تقریباً 90000 امریکی سپاہیوں کی ہے ۔ اس کے علاوہ مزید امریکی سپاہی اور میرین فوجی آپریشن فریڈم میں شامل ہیں جس کا ہدف القاعدہ کے دہشت گردوں کو ڈھونڈ نکالنا ہے ۔ چارلس کَپچَن کونسل آن فارن ریلیشنز میں نیٹو کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’دہشت گردوں کا سراغ لگانے کا کام، خاص طور سے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے لوگ جو سرحد پار پاکستان سے آتے ہیں، بیشتر امریکہ نے انجام دیا ہے ۔ لیکن اتحاد میں شامل مختلف ملکوں نے بھی انسداد دہشت گردی کے سرگرمیوں میں عارضی طور سے حصہ لیا ہے۔‘‘
تقریباً ایک عشرے سے، امریکہ کی قیادت میں انٹیلی جنس ایجنسیاں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ چند روز ہوئے، جب امریکہ کی اسپیشل فورسز نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد کے ایک کمپاؤنڈ میں اسے ہلاک کردیا تو یہ تلاش ختم ہو گئی۔ اوہائیو ویسلیان یونیورسٹی کے شان کی کہتے ہیں کہ بن لادن کی موت سے ایک اہم سوال پیدا ہوا ہے۔’’میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں اب یہ بالکل جائز بحث شروع ہو جائے گی کہ اب جب کہ بن لادن ختم ہو چکا ہے، ہم افغانستان میں کیوں ہیں۔‘‘
توقع ہے کہ امریکہ افغانستان سے اس جولائی میں اپنی فوجیں واپس نکالنا شروع کر دے گا اور تمام بین الاقوامی جنگی فوجیں 2014 تک ملک چھوڑ دیں گی، اگر حالات نے اجازت دی۔ تا ہم، ممکن ہے کہ کچھ فوجیں 2014 کے بعد بھی وہا ں رہیں۔ بعض امریکی اور یورپی قانون سازوں نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ افغانستان سے فوجیں زیادہ تیزی سے نکال لی جانی چاہئیں۔ جرمن مارشل فنڈ کی Constanze Stelzenmueller کہتی ہیں کہ یہ بڑا مقبول عام خیال ہے جس کی وجوہ سمجھ میں آتی ہیں لیکن اس خیال کی مزاحمت کی جانی چاہیئے کیوں کہ ایسا کرنا غیر ذمہ داری ہو گی۔ مغربی ملکوں کا افغانستان سے نکل جانا کسی کے مفاد میں نہیں ہوگا کیوں کہ اس طرح افغانستان میں ایک بار پھر حالات خراب ہو جائیں گے ۔
کونسل آن فارن ریلیشنز کے چارلس کپچن کے خیال میں بن لادن کی موت سے ایک مختلف قسم کی بحث شروع ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں’’بن لادن کا خاتمہ کرنے کے کامیاب مشن سے ان لوگوں کی آوازیں مضبوط ہو جائیں گی جو یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا چاہیئے وہ چاہے پاکستان میں ہوں، افغانستان میں ہوں، صومالیہ میں یا سوڈان میں، اور ہمیں افغانستان میں بغاوت کے انسداد پر کسی قدر کم توجہ دینی چاہیئے۔‘‘
برائین جینکنز دہشت گردی کے امور کے ماہر ہیں اور رینڈ کو آپریشن سے وابستہ ہیں۔ ان کے خیال میں طالبان کے بعض ارکان پر اسامہ بن لادن کی موت کے مثبت اثرات پڑیں گے ۔ وہ کہتے ہیں’’طالبان میں در اصل میں بہت سے مختلف قسم کےلوگ اور نیٹ ورکس شامل ہیں اور ان میں ہمیشہ اتفاق رائے نہیں ہوتا۔ بعض لوگ القاعدہ کے نظریات اور خیالات سے مکمل طور پر متفق ہوتے ہیں جب کہ بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں بن لادن کی موت کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں ۔ یہ وہ طالبان ہیں جو افغان حکومت کے ساتھ کسی شکل میں مذاکرات کے خواہش مند ہیں جن کے نتیجے میں یہ تنازع طے پاسکتا ہے۔ ان کی رائے میں القاعدہ ایک بوجھ تھی جس سے چھٹکارا پانا ضروری تھا۔‘‘
جینکنز اور بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہ بے چینی اور عرب موسم بہار کی آمد کے ساتھ القاعدہ کا نظریہ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ تا ہم، ماہرین انتباہ کرتے ہیں کہ بِن لادن کی موت کے بعد، القاعدہ کے ارکان کویہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اب بھی سرگرم ہیں اور یہ سمجھنا غلط ہے کہ بن لادن کے انتقال کے ساتھ القاعدہ بھی رخصت ہو گئی ہے۔