رسائی کے لنکس

’افغانستان سے امریکی فوجوں کا جلد انخلا ترقی کو متاثر کرسکتا ہے‘


جنرل رچرڈ ملز وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا قندھار پہنچنے پر استقبال کررہے ہیں
جنرل رچرڈ ملز وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا قندھار پہنچنے پر استقبال کررہے ہیں

امریکی محکمۂ دفاع کے اعلیٰ عہدے دار افغانستان میں جولائی سے امریکی فوجوں کی تعداد میں کمی کرنے کا ایک منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد، امریکی کانگریس کے بعض ارکان نے زیادہ تیزی سے فوجیں واپس نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پینٹا گان کے سینئر افسر افغانستان کی جنگ کے بارے میں زیادہ پر اعتماد ہوتے جا رہے ہیں، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر فوجوں کی واپسی بہت زیادہ تیزی سے ہوئی، تو اب تک جو ترقی ہوئی ہے، اس کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے۔

پینٹا گان کے عہدے دار اب بھی یہی کہتے ہیں کہ افغانستان میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ پائیدار نہیں اور حالات پھر پرانی ڈگر پر واپس جا سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں جو کبھی طالبان کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے تھے، انھوں نے جو ترقی کی ہے ، اس پر انہیں فخر ہے ، لیکن حالات میں یہ بہتری کتنی مستحکم ہے، اس کا پتہ اس سال گرمیوں کا لڑائی کا سیزن ختم ہونے کے بعد ہی چل سکے گا، جو ابھی شروع ہورہا ہے ۔ لیکن اس جنگ میں ، یہ طے کرنے کے لیے کہ سخت کوشش کے بعد جو کامیابی حاصل ہوئی ہے، وہ باقی رہے گی یا نہیں، سویلین عوامل بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے فوجی عوامل۔

امریکہ کی میرین کور کے میجر جنرل رچرڈ ملز افغانستان کے جنوبی ہلمند صوبے میں ، جو برسوں سے طالبان کا مضبوط ٹھکانہ رہا ہے، ایک سال تک اتحادی فوجوں کی کمان کرنے کے بعد، حال ہی میں واپس آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میں پُر اعتماد ہوں کہ مقامی افغان آبادی نے اپنے مستقبل کی خاطر جو کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، اس کی وجہ سے وہاں ہونے والی ترقی باقی رہے گی۔ وہ دھمکیوں کے باوجود اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہے ہیں۔ باغی یہ نہیں چاہتے کہ لوگ تعلیم میں شرکت کریں لیکن اگر اس کے باوجود وہ ایسا کر رہے ہیں تو یہ حقیقی ترقی ہے۔‘‘

واشنگٹن کی اٹلانٹک کونسل کے ایک اجتماع میں ملز نے بتایا کہ سکیورٹی کی حالت میں اور افغان فوج اور پولیس میں کیا بہتری آئی ہے۔ لیکن انھوں نے کافی وقت یہ بتانے میں صرف کیا کہ علاج معالجے کی سہولتوں، روزگار کے مواقع اور اسکول کھولنے کے پروگرام کتنے زیادہ مقبول ہیں۔ جنرل ملز نے تسلیم کیا کہ کرپشن سمیت افغانستان میں بہت سے مسائل باقی ہیں۔ گذشتہ ہفتے قندھار کی جیل سے بہت بڑی تعداد میں قیدیوں کے فرار ہونے کا واقعہ بھی کرپشن کی وجہ سے ہوا تھا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر جب وہ افغانستان سے رخصت ہوئے تو وہاں ہونے والی ترقی کے بارے میں بہت خوش تھے اور انھوں نے تقریباً ایک درجن مقامات پر اس بارے میں تقریریں کی ہیں۔

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیزمیں سینئر تجزیہ کار انتھونی کورڈزمین جو برسوں سے افغانستان کی حکمت عملی پر تنقید کرتے رہے ہیں، یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں صحیح معنوں میں ترقی ہوئی ہے ۔ لیکن وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ابھی بہت سے مسائل باقی ہیں۔

انھوں نے ایک مسئلے کا خاص طور سے ذکر کیا’’ہم ایک ایسی چیز تیار کر رہے ہیں جو فوجی پہلو سے نمٹنے میں بڑی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے اور اس سے پولیس کو بھی کچھ مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو اب بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اب بھی وہاں افغان مقامی حکومت یا ضلعی حکومت کی شکل میں، جس معیار کے نظم و نسق کی ضرورت ہے، ویسا کوئی موثر نظامِ حکومت موجود نہیں ہے۔‘‘

’افغانستان سے امریکی فوجوں کا جلد انخلا ترقی کو متاثر کرسکتا ہے‘
’افغانستان سے امریکی فوجوں کا جلد انخلا ترقی کو متاثر کرسکتا ہے‘

لیکن کورڈزمین کہتے ہیں کہ امریکہ کی حکمت عملی میں حالیہ برسوں کے دوران ایک اہم تبدیلی آئی ہے ۔ اب امریکی اسٹائل کی جمہوریت اور سرمایہ داری نظام نافذ کرنے کے بجائے، نسبتاً کمتر درجے کے لیکن قابلِ حصول اہداف پر توجہ دی جا رہی ہے ۔

امریکہ اور نیٹو کا ہدف یہ ہے کہ 2014 تک، افغانستان میں اتنی ترقی ہو جائے کہ افغان فورسز اپنے ملک کی سکیورٹی کی پوری ذمہ داری سنبھال لیں۔ کورڈزمین کہتے ہیں کہ یہ مقصد صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب فوج، پولیس اور سویلین ادارے افغان کلچر کے مطابق ہوں۔

جنرل ملز کہتے ہیں کہ امریکی فوج یہی کچھ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔’’ہم نے دوسری لڑائیوں کے مقابلے میں، یہاں کسی حد تک مختلف انداز استعمال کیا ہے۔ ہم نے بڑی احتیاط سے مقامی بزرگوں کو، اور مقامی لیڈروں کو اپنے ساتھ ملایا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ وہ کیا چاہتےہیں، اور افغانستان کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔اس کے بعد ہم نے ادارے بنائے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم وہ چیزیں مسلط کریں جو امریکہ یا اتحادی فورسز کی نظر میں اہم ہوں۔‘‘

بہت سے ماہرین اور جنرلوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال امریکی اور اتحادی فوجوں کی تعداد میں تیزی سے جو اضافہ کیا گیا تھا، اس سے بالآخر پائیدار ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ لیکن فوجوں میں اضافے کے ساتھ ہی، صدر براک اوباما نے یہ وعدہ بھی کیا کہ اس سال جولائی میں افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد میں کمی شروع کر دی جائے گی۔

عہدے داروں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ یہ عمل بتدریج ہو گا اور اس میں افغانستان کے مختلف حصوں میں سکیورٹی کی صورت حال کو مد نظر رکھا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سال کے بقیہ حصے کے واقعات سے یہ ظاہر ہونا شروع ہو جائے گا کہ فوجوں میں اضافے سے سکیورٹی اور سویلین اداروں میں جو بہتری آئی ہے، وہ کتنی ٹھوس ہے، اور آیا فوجوں کی واپسی کا عمل اور زیادہ تیزی سے شروع کیا جا سکتا ہے ۔

XS
SM
MD
LG