نیٹو کے لیڈر اس بات پر غور کریں گے کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ اس اتحاد کی فوجی طاقت اور صلاحیتیں ترقی کرتی رہیں اور قائم رہیں تاکہ مستقبل میں مشن مکمل ہوتے رہیں۔ ان صلاحیتوں میں بنیادی ڈھانچے کی سہولتیں، فائر پاور، انٹیلی جنس، فوجی سازو سامان کی نقل و حرکت کے انتظامات اور نگرانی کا نظام شامل ہیں۔
کونسل آن فارن ریلیشنز کے ماہر چارسل کپچن کہتے ہیں کہ لیڈر ایک بار پھر اس نکتے پر توجہ مرکوز کریں گے کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ یورپی ملک نیٹو میں اپنے اپنے حصے کا فوجی بوجھ برداشت کریں۔
کپچمن کہتے ہیں کہ کئی وجوہات کی بنا پر اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے کا مسئلہ بہت زیادہ اہم ہو گیا ہے ۔’’پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ یورپ سے باہر نکل رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی ایشیا پر زیادہ زور دے رہا ہے ۔ یورپ میں ہمارے فوجیوں کی تعداد کم ہو کر 30,000 رہ جائے گی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور اس کا اپنا دفاعی بجٹ کم ہوتا جا رہا ہے ۔ ان حالا ت میں امریکہ اس بارے میں اور زیادہ حساس ہو گیا ہے کہ نیٹو اتحاد میں اسکے شراکت دار کیا کر رہے ہیں ۔ اور پھر یورپ میں مالی بحران کا مسئلہ ہے ، جس سے یورپی یونین کی توانائی کو گھن لگ رہا ہے۔ بیشتر مالی وسائل قرض کے بوجھ سے نکلنے پر خرچ ہوں گے، نئے فوجی سازوسامان کی خریداری پر نہیں۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ بوجھ میں ہاتھ بٹانے کی ایک اچھی مثال لیبیا کا تنازع تھا جس میں معمر قذافی کا تختہ الٹ دیا گیا ۔ کپچن کہتے ہیں کہ اس جھگڑے میں یورپیوں نے فوجی کارروائی میں نمایاں کردار ادا کیا۔’’لیکن یہ بات بھی بالکل واضح تھی کہ امریکہ کو بہت سے اہم امور میں یورپیوں کا ساتھ دینا ضروری تھا۔ ان میں دوبارہ ایندھن لینا، انٹیلی جنس، جائزہ اور نگرانی شامل ہیں۔ یورپیوں کے پاس گولہ بارود ختم ہونا شروع ہوا تو امریکہ کو انہیں یہ چیزیں فراہم کرنا پڑیں۔ اور ایک طرح سے، ایک ایسے مشن سے جو نسبتاً مختصر عرصے کا تھا اور جو زیادہ شدید نہیں تھا، اس بات کا پتہ چل گیا کہ یورپیوں کے پاس ان کے ذخیرہ گھروں میں زیادہ ساز و سامان نہیں ہے۔‘‘
شکاگو کے سربراہ اجلاس میں، توقع ہے کہ نیٹو کے لیڈر فوجی وسائل کو زیادہ اچھی طرح یکجا کرنے ، اور کئی ملکوں کے دفاعی ڈھانچوں کو ہم آہنگ کرنے کے طریقوں پر غور کریں گے۔ دفاع کا یہ وہ تصور ہے جسے اسمارٹ ڈفینس کا نام دیا گیا ہے ۔
نیٹو اتحاد کے اعلیٰ عہدے دار ایسے ملکوں کے ساتھ بھی جو نیٹو کے رکن نہیں ہیں ، جیسے آسٹریلیا، نیو زی لینڈ، پاکستان، کوریا، آئر لینڈ، سویڈن، اور فن لینڈ کے ساتھ شرکت داریوں کے تصور پر بھی تبادلۂ خیال کریں گے ۔
اوہائیو ویسلیان یونیورسٹی میں نیٹو کے ماہر شون کے کہتے ہیں کہ ایک اور شراکت داری بھی انتہائی اہم ہے ۔’’نیٹو اور یورپی یونین کے درمیان تعلق بھی انتہائی اہم ہے ۔ کیوں کہ جب آپ یہ سوچتے ہیں کہ نیٹو کے رکن ممالک کو آج کل جو سب سے بڑا چیلنج در پیش ہے وہ کیا ہے، تو اس کا فوجی طاقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان ملکوں کو کوئی روایتی فوجی خطرہ در پیش نہیں ۔ جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے، وہ ان ملکوں کی معیشت ہے ۔‘‘
کے کہتے ہیں کہ جب آپ یورو زون میں بحران کی بات کرتے ہیں، تو آپ کے لیے دفاعی اخراجات کے بارے میں بات کرنا نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ ’’یورپیوں کو دفاع پر زیادہ پیسہ خرچ نہیں کرنا چاہیئے ، اور نہ ہمیں کرنا چاہیئے ۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ ہم نیٹو اور یورپی یونین کے درمیان تعلق کو بجٹ، ترجیحات اور آپریشنز کے بارے میں نئی حقیقتوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کیسے استعمال کریں۔ اس کے علاوہ، یورپی یونین کس طرح ایسا کردار ادا کر سکتی ہے کہ جب مستقبل میں ان کے اپنے ہمسایے میں، جیسے لیبیا اور بلقان میں مسائل پیدا ہوں، تو یورپی خود ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ لہٰذا نیٹو اور یورپی یونین کی شراکت داری انتہائی اہم ہو گئی ہے ۔‘‘
جہاں تک بلقان کے علاقے کا تعلق ہے، تو اس علاقے کے کئی ملک، جیسے مقدونیہ، مونٹینگرو اور بوسنیا نیٹو کے رکن بننے کے خواہش مند ہیں ۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ نیٹو کی یہ سربراہ کانفرنس، نیٹو کو وسعت دینے کے مسئلے پر غور نہیں کرے گی اور نئے ملکوں کو رکنیت کی دعوت نہیں دے گی۔