اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے عدالت میں قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے درخواست ضمانت کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ ہارڈشپ اور انتہائی نوعیت کا کیس نہیں بنتا، سزا معطل کرنے اور ضمانت کے لیے معیار ایک ہی ہے۔
نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ کیا نواز شریف کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ اِن کی طبیعت رواں سال تین جنوری کو خراب ہوئی لیکن پانچ فروری کو دائر کی جانے والی سزا معطلی کی درخواست میں اِس کا ذکر نہیں کیا گیا۔
جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ سزا ہونے کے بعد جیل میں یہ صورت حال بنی جس پر نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ دونوں درخواستوں میں فریقین اور استدعا ایک ہی قسم کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے نیب پراسیکوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل گراونڈ کا میرٹ اور نہ ہی ٹرائل سے تعلق ہوتا ہے۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ آئندہ ہفتے آپ بیمار ہو جائیں گے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اُنہیں آئندہ ہفتے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا۔ کیا میڈیکل بورڈ نواز شریف کی درخواست پر بنتے رہے، وہ تو حکومت کے کہنے پر بنے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اِس مطلب ہے کہ حکومت میاں صاحب کی بیماری کو سنجیدہ نہیں سمجھتی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل ہے وہ معاملہ تو وفاقی حکومت دیکھے گی۔
سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ حکومت پنجاب کے نمائندے نے گزشتہ سماعت پر حقائق چھپائے، میڈیکل رپورٹ میں انجیوگرافی کا کہا گیا ہے۔ گردے کے مرض کا علاج کرنے والا ڈاکٹر کلیئرنس دے گا تو انجیو گرافی ہو گی، لہٰذا نوازشریف کی بیماری کا علاج جیل میں ممکن نہیں، ان کی جان کو خطرہ ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نوازشریف کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
نواز شریف کا فیصلہ محفوظ کیے جانے پر وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے پنجاب اسمبلی کے احاطہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے گلے کبھی ختم نہیں ہوں گے، وہ صرف بیماری کے نام پر ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔
“پہلے اُن کا رونا تھا مجھے کیوں نکالا۔ اب اِن کا رونا ہے مجھے کیوں سنبھالا۔ ہم اِن کو ہر طرح سے سنبھال رہے ہیں لیکن اِن کی کسی قسم کی تشفی نہیں ہو رہی۔ آخری بات وہی ہے کہ یہ سات ارب والے پاناما فلیٹس میں جا کر رہنا چاہتے ہیں اور وہیں اِن کی تشفی ہو گی۔”۔
عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اُن کی عیادت کے لیے جناح اسپتال لاہور پہنچے۔ اِس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ اللہ تعالی کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے اور اللہ پاکستان کے حالات پر رحم کرے۔
“انصاف کے مقاضے پورے ہونے چاہیں، انصاف وہ ہونا چاہیے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ یہ سلیکٹڈ قسم کا احتساب ہے”۔
احتساب عدالت نے گزشتہ برس چوبیس دسمبر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ جس کے بعد نیب نے انہیں گرفتار کر کے کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا تھا۔