'دھرنے کے دوران آئی ایس آئی چیف نے پیغام دیا کہ استعفی دے دیں'

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے غیر رسمی سربراہ نواز شریف کا اپنے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے انکشاف کیا ہے کہ 2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران اس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے اُنہیں پیغام دیا کہ استعفی دے دیں ورنہ ملک میں مارشل لا لگ سکتا ہے۔

بدھ کو لاہور میں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ اُنہیں یہ پیغام آدھی رات کو پہنچایا گیا لیکن اُنہوں نے مستعفی ہونے سے صاف انکار کر دیا۔

خیال رہے کہ 2014 میں اُس وقت حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنا دیا تھا جو 126 دن تک جاری رہا۔

نواز شریف نے کہا کہ وہ شہباز شریف کے ساتھ سلوک پر دکھی ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے اُن کے جذبے اور بڑھے ہیں۔ وہ اپنی جد و جہد مزید تیز کریں گے۔ اُنہیں اس پر فخر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں اُن پر فخر ہے۔ شہباز شریف مردِ میدان ہیں۔ اُنہوں نے مشکلات کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

نواز شریف نے کہا کہ اُصولی طور پر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو گرفتار ہونا چاہیے، لیکن گرفتار شہباز شریف کو کر لیا گیا۔

نواز شریف نے ایک بار پھر سوال اُٹھایا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اربوں روپے کیسے بنائے؟ اس کا حساب کسی نے نہیں پوچھا۔ عاصم سلیم باجوہ کو کلین چٹ دے دی گئی، جس طرح ثاقب نثار نے بنی گالہ کو دے دی تھی۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں پاکستانی فوج کے سیاست میں کردار کے حوالے سے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی تو مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان کا کیا مطلب ہے؟

نواز شریف نے کہا کہ “مولانا عبدالغفور حیدری کو جنرل باجوہ نے کہا کہ ہم نواز شریف کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، آپ درمیان میں نہ آئیں۔ کیا مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان کی کوئی تردید ہوئی؟ اس بیان کا کیا مطلب ہے؟

نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ اُن کا ضمیر انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر چپ رہنا تسلیم نہیں کرتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آ گئے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر قبول نہیں کر سکتے۔ کسی کا حق چھین کر کسی اور کی جھولی میں گرا دیا جائے، یہ ظلم ہے، قبول نہیں کر سکتے۔

نواز شریف نے دورانِ خطاب الزام لگایا کہ پاکستان میں عدالتوں پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لیے جاتے ہیں۔ کیا وہ ایسے ہی یہ سب چلنے دیں؟

نواز شریف نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے۔ آج پارلیمان کو نمائندے نہیں بلکہ کوئی اور چلا رہا ہے۔ کوئی اور بتاتا ہے کہ کون سا بل لانا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ یہ سب باتیں سوچنے والی ہیں۔

نواز شریف نے کہا کہ جج ارشد ملک نے تسلیم کر لیا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ سنایا تھا۔ ارشد ملک برطرف ہو گیا لیکن فیصلہ برقرار ہے، الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔

حکومت کا ردعمل

نواز شریف کے خطاب پر ردعمل میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک ٹیلی وژن چینل سے گفتگو میں کہا کہ سسٹم کو چکمہ دے کر ملک سے باہر جانے والے سابق وزیراعظم ان کے الفاظ میں ذہنی توازن کھو چکے ہیں اور باہر بیٹھ کر ملکی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا بلکہ وہ منی لانڈرنگ میں اپنے بے گناہی ثابت نہ کرنے پر گرفتار ہوئے ہیں اور ان کے اپنے وکلا کی جانب سے ضمانت کی درخواست واپس لیے جانے پر ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

رکنِ پنجاب اسمبلی اور چیئر پرسن قائمہ کمیٹی مسرت جمشید چیمہ نے نواز شریف کی تقریر پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) الطاف حسین ٹو لانچ کر کے اپنی سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ہمیشہ سے قومی اداروں کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جب مفاہمت، این آر او کے حصول کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں تو نواز شریف اداروں پر چڑھ دوڑے ہیں۔ عوام قومی اداروں کے گرد حصار بنائے ہوئے ہیں۔ چلے ہوئے کارتوس کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے لندن نے سیاسی طور پر متحرک ہونے کو سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔