امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' کی ايک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کابل میں القاعدہ کے رہنما الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان کے سات ارب ڈالر سے زائد کے منجمد اثاثوں کا اجرا روک دیا ہے۔
گزشتہ اگست میں امريکی افواج کے انخلا اور طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے سات ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے منجمد کر دیے تھے۔
اس سال کے آغاز ميں واشنگٹن کا منصوبہ تھا کہ سات ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں کا نصف حصہ انسانی امداد کے لیے استعمال کیا جائے جب کہ بقیہ حصہ ستمبر 2001 کے حملوں کی قانونی چارہ جوئی پر خرچ کيا جائے گا۔ اس سلسلے ميں امریکی حکام کا مزيد کہنا تھا کہ وہ ساڑھے تین ارب ڈالر کے اثاثوں کو جاری کرنے کے عمل کو یقینی بنائيں گے جس سے افغانستان کی عوام کو فائدہ پہنچے گا۔
SEE ALSO: امریکہ، طالبان مذاکرات: افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی پر بات چیتسات ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں کا نصف حصہ جو 11 ستمبر 2001 کے حملوں کی قانونی چارہ جوئی کے لیے مختص کيا گيا تھا۔اس پر افغانستان کے مرکزی بینک نے شديد تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ امريکہ ميں موجود يہ اثاثے بین الاقوامی قانون کی رو سے افغانستان کے لوگوں کے ہیں۔
افغان عوام کے وکلا کا بھی يہی کہنا تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے ان اثاثوں کو استعمال کرنا غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہوگا۔
وال اسٹريٹ جرنل کی اس خبر نے ايک بار پھر ان اثاثوں پر ايک سواليہ نشان اٹھا ديا ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پریس بریفنگ میں پوچھے گئے ا یک سوال کے جواب میں ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد میڈیا پر تنقید کرنا نہيں ہے۔ تاہم ’’ریزرو فنڈز میں تین اشاريہ پانچ بلین ڈالر کے حتمی ڈسپوزیشن کے حوالے سے انتہائی غلط رپورٹنگ ہوئی ہے۔ یہ خیال کہ ہم نے ان فنڈز کو افغان عوام کے فائدے کے لیے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے بالکل غلط ہے۔"
ان کا مزيد کہنا تھا کہ امريکہ کی توجہ اس وقت ان کوششوں پر مرکوز ہے کہ افغان مرکزی بینک کے تین اشاريہ پانچ بلین ڈالر کے ذخائر کو افغان عوام کے فائدے کے لیے درست طریقے سے کيسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
SEE ALSO: افغانستان کےمنجمد اثاثے امریکہ کے لیے استعمال کرنا کیسے ممکن ہوا؟امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ کا کہنا تھا کہ ’’ہم افغان مرکزی بینک کی دوبارہ سرمایہ کاری کو قریب المدت آپشن کے طور پر نہیں دیکھتے۔‘‘
ويسٹ نے مزيد کہا کہ "طالبان کی جانب سے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو پناہ دینے سے دہشت گرد گروہوں کو فنڈز کی منتقلی کے حوالے سے ہمارے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔"
تھامس ویسٹ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نيڈ پرائس کا کہنا تھا کہ "ہم نے افغان معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے کئی ماہ سے افغان ٹیکنو کریٹس کو مرکزی بینک کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں ۔" اُن کے بقول امریکہ کو ان اثاثوں کے تحفظ اور نگرانی کے انتظام پر بھروسہ نہیں ہے۔
پرائس کا مزید کہنا تھا کہ ’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایمن الظواہری کی افغان سرزمین پر موجودگی اور حقانی طالبان نیٹ ورک کے سینئر ارکان کے علم میں اس کا وہاں ہونا ان خدشات کو تقویت دیتا ہے جو ہمیں دہشت گرد گروہوں سے فنڈز کی ممکنہ منتقلی کے حوالے سے ہیں۔"
ان کا مزيد کہنا تھا کہ امريکہ ایسے طریقۂ کار پر غور کر رہا ہے جو اس بات کو يقينی بنائے کہ یہ اثاثے افغانستان کے لوگوں تک مؤثر طریقے سے پہنچ سکيں۔
ماہرين کے مطابق گزشتہ ماہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی کابل ميں امریکی ڈرون سے ہلاکت نے طالبان کے اندر گہرے اختلافات کو بے نقاب اور افغانستان سے عالمی دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔