اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اگلے ماہ جب صدر براک اوباما اسرائیل کا دورہ کریں گے تو ایجنڈے پر ایران سر فہرست ہوگا
واشنگٹن —
شمالی کوریا اور ایران کو مماثل قرار دیتے ہوئے اسرائیل نے کہا ہے کہ شورش پسند مملکتوں کی جانب سے جوہری پھیلاؤ مشرق وسطیٰ کو ایک آتشیں دہانے تک دھکیل سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے شمالی کوریا کا جوہری تجربہ بین الاقوامی برادری کے لیے یہ انتباہ ہے کہ ایران کو جوہری بم کے حصول سے روکنےکے لیے مزید سخت اقدام کی ضرورت ہے۔
اُن کے الفاظ میں: ’کیا پابندیاں، سخت پابندیاں، شمالی کوریا کو روک سکتی ہیں؟ نہیں۔۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں ہر جگہ اور خاص طور پر ایران میں جوہری دھماکے کی خواہش کی ایک بازگشت پیدا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کہاں ہے، بین االاقوامی برادری کہاں ہے، سخت رد عمل کہاں ہے‘۔
ایران اور شمالی کوریا دونوں سخت مغربی پابندیوں کے تحت ہیں، جن کا مقصد ان کے جوہری پروگرام کو ختم کرانا ہے۔ لیکن، مسٹر نتن یاہو نے یروشلم میں یہودی راہنماؤں کو بتایا کہ جب تک ایران کے خلاف مزید کچھ نہ کیا گیا وہ مستقل طور پر سرکش رہے گا۔
اُن کے الفاظ میں: صرف پابندیاں ہی ایران کے جوہری پروگرام کو نہیں روک سکیں گی۔ ان کے ساتھ ساتھ سخت مستند فوجی دھمکی بھی ہونی چاہیئے ۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرُ امن مقاصد کےلیے ہے۔ لیکن، اسرائیل اور مغرب کا خیال ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ جوہری ہتھیار بنا رہی ہے جو یہودی ریاست کےوجود کےلیےایک خطرہ ہو سکتے ہیں ۔
ایران کے رہبر اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ ای نے اختتام ہفتہ کہا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار وں کی کوشش نہیں کر رہا، لیکن اگر اس نے ایسا کرنا چاہا تو کوئی ملک اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا۔
امریکہ اور کچھ دوسرے ملک تہران کے جوہری پروگرام پر گفتگو کے لیے اس ماہ کے آخر میں قزاقستان میں ایرانی عہدے داروں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ایران پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔
مسٹر نتن یاہو انتباہ کر چکے ہیں کہ اگر پابندیاں اور مذاکرات ناکام ہو گئے تو اسرائیل خود سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول، دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اس دہشت گرد حکومت کو جوہری بموں تک رسائی کے لیے تمام اصول و ضوابط توڑنے کی اجازت دے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ اگلے ماہ جب صدر براک اوباما اسرائیل کا دورہ کریں گے تو ایجنڈے پر ایران سر فہرست ہوگا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے شمالی کوریا کا جوہری تجربہ بین الاقوامی برادری کے لیے یہ انتباہ ہے کہ ایران کو جوہری بم کے حصول سے روکنےکے لیے مزید سخت اقدام کی ضرورت ہے۔
اُن کے الفاظ میں: ’کیا پابندیاں، سخت پابندیاں، شمالی کوریا کو روک سکتی ہیں؟ نہیں۔۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں ہر جگہ اور خاص طور پر ایران میں جوہری دھماکے کی خواہش کی ایک بازگشت پیدا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کہاں ہے، بین االاقوامی برادری کہاں ہے، سخت رد عمل کہاں ہے‘۔
ایران اور شمالی کوریا دونوں سخت مغربی پابندیوں کے تحت ہیں، جن کا مقصد ان کے جوہری پروگرام کو ختم کرانا ہے۔ لیکن، مسٹر نتن یاہو نے یروشلم میں یہودی راہنماؤں کو بتایا کہ جب تک ایران کے خلاف مزید کچھ نہ کیا گیا وہ مستقل طور پر سرکش رہے گا۔
اُن کے الفاظ میں: صرف پابندیاں ہی ایران کے جوہری پروگرام کو نہیں روک سکیں گی۔ ان کے ساتھ ساتھ سخت مستند فوجی دھمکی بھی ہونی چاہیئے ۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرُ امن مقاصد کےلیے ہے۔ لیکن، اسرائیل اور مغرب کا خیال ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ جوہری ہتھیار بنا رہی ہے جو یہودی ریاست کےوجود کےلیےایک خطرہ ہو سکتے ہیں ۔
ایران کے رہبر اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ ای نے اختتام ہفتہ کہا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار وں کی کوشش نہیں کر رہا، لیکن اگر اس نے ایسا کرنا چاہا تو کوئی ملک اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا۔
امریکہ اور کچھ دوسرے ملک تہران کے جوہری پروگرام پر گفتگو کے لیے اس ماہ کے آخر میں قزاقستان میں ایرانی عہدے داروں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ایران پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔
مسٹر نتن یاہو انتباہ کر چکے ہیں کہ اگر پابندیاں اور مذاکرات ناکام ہو گئے تو اسرائیل خود سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول، دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اس دہشت گرد حکومت کو جوہری بموں تک رسائی کے لیے تمام اصول و ضوابط توڑنے کی اجازت دے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ اگلے ماہ جب صدر براک اوباما اسرائیل کا دورہ کریں گے تو ایجنڈے پر ایران سر فہرست ہوگا۔