پلیئنگ کنڈیشنز میں ایک مرتبہ پھر ترامیم، کرکٹ میں دو سال میں کیا کچھ بدلا؟

کرکٹ میں قوانین امپائرز کی رہنمائی کے لیے ہوتے ہیں ، نیوٹرل امپائرز کی تعیناتی سے ان کا کردار مزید غیر جانب دار ہوگیا۔ لیکن پھر بھی کرکٹ میں کچھ قوانین ایسے تھے جن کی وجہ سے مخالف کھلاڑیوں کےدرمیان بدمزگی پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی۔

ایسا ہی ایک قانون 'سافٹ سگنل' کا تھا جسے متعدد ٹیموں نے متنازع قرار دے کر اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی نے اسے یکسر ختم کرنے اور کئی نئے قوانین متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے ۔

ان قوانین کا اطلاق یکم جون سے انگلینڈ اور آئرلینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچ سے ہوگا جب کہ سات جون سے دوسری ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل بھی انہی کے تحت کھیلا جائے گا۔


نئے قوانین کے مطابق اگر ٹی وی امپائر ٹیکنالوجی کی مدد کے باوجود آن فیلڈ امپائر کے فیصلے سے متفق نہیں ہوتا تو وہ اپنا فیصلہ دے سکتا ہے۔ اس کا آن فیلڈ امپائرز سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

پلیئنگ کنڈیشنز میں سافٹ سگنل کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ فاسٹ بالرز کا سامنا کرنے والے بلے بازوں، بلے بازوں کے قریب فیلڈنگ کرنے والے کھلاڑیوں اور اسٹمپ کے قریب کھڑے ہونے والے وکٹ کیپرز کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ فری ہٹ کے قانون میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔


سافٹ سگنل سہولت کیا تھی اور مبصرین کے خیال میں یہ متنازع کیوں تھا؟

دو سال قبل بھارت میں کھیلی جانے والی انڈین پریمئیر لیگ نے سافٹ سگنل کی سہولت کو الوداع کہہ دیا تھا کیوں کہ بھارتی بورڈ کے خیال میں یہ کھیل کو متنازع بناتی تھی۔ اس سہولت کے ذریعے آن فیلڈ امپائرز ٹی وی امپائر کو بھیجے گئے ہر ریفرل پر اس کی مدد کے لیے اپنا اِن پُٹ دیتے تھے جس سے تھرڈ امپائر کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی تھی۔

لیکن رواں سال کے آغاز میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز میں ایک نہیں، دو ایسے واقعات رونما ہوئے جس نے اس قانون کو کھلاڑیوں اور مداحوں کی نظر میں مشکوک سے متنازع بنا دیا۔


جنوری میں سڈنی میں کھیلے گئے میچ میں جنوبی افریقی فیلڈر سائمن ہارمر نے آسٹریلوی بلے باز مارنس لبوشین کا کیچ تھاما لیکن آن فیلڈ امپائرز نے اس کے لیے تھرڈ امپائر سے رجوع کیا جس نے سافٹ سگنل آؤٹ ہونے کے باوجود اسے ناٹ آؤٹ قرار دیا۔

تین دن کے بعد آسٹریلوی کھلاڑی اسٹیو اسمتھ نے سلپ میں مخالف کپتان ڈین ایلگر کا کیچ پکڑا جسے آن فیلڈ امپائر نے ریفر تو کیا لیکن ناٹ آؤٹ کے سگنل کے ساتھ اور تھرڈ امپائر کو اسے ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کے آؤٹ ہونے کے بارے میں معلوم ہوتے ہوئےبھی، ناٹ آؤٹ ہی دینا پڑا۔


ان دونوں متنازع فیصلوں کے بعد نہ صرف کرکٹ دیکھنے والوں نے بلکہ کھیلنے والوں نے بھی اپنے طور پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس سے قبل بھارتی وراٹ کوہلی اور پاکستانی ہم منصب بابر اعظم بھی الگ الگ مواقع پر سافٹ سگنل پر نظر ثانی کی اپیل کرچکے تھے۔

حالیہ عرصے میں کون کون سے کرکٹ قوانین تبدیل کیے گئے اور ان کا کھیل پر کیا اثر پڑا؟

یہ پہلا موقع نہیں جب کرکٹ کے کسی بڑے قانون کو آئی سی سی کرکٹ کمیٹی نے تبدیل کیا ہو۔ گزشتہ دو برسوں میں سابق بھارتی کپتان سارو گنگولی کی سربراہی میں کرکٹ کمیٹی نے متعدد قوانین کو تبدیل کرنے کی سفارش کی ، جس سے بظاہر کھیل کو فائدہ ہوا ہے۔

ان میں سے چند کا اطلاق گزشتہ سال اکتوبر میں ہوا اور کچھ پر اگلے ماہ سے عمل درآمد ہوگا۔'سافٹ سگنل' اسی کوشش کا نشانہ بننے والا قانون ہے۔ لیکن اس سے قبل بھی کئی اہم قوانین میں ترمیم سے کھیل کو مزید ماڈرن بنانے کی کوشش کی گئی۔


سب سے اہم ترمیم فری ہٹ کے قانون میں آئی جس پر کرکٹ ماہرین اور مبصرین نے گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ہونے والے پاک بھارت میچ کے بعد خوب بحث کی تھی۔ اس میچ میں بھارتی بلے باز کوہلی نے ایک نو بال پر اس وقت تین رن بنائے جب گیند وکٹ سے ٹکرا کر باؤنڈری کی طرف چلی گئی تھی۔

مخالف کپتان بابر اعظم اور فیلڈرز کے خیال میں وکٹوں سے ٹکرانے کے بعد گیند کو ڈیڈ قرار دیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن امپائرز نے کھیل کو جاری رکھا اور یہ تین قیمتی رنز بھارتی ٹیم کے حصے میں گئے جس کی وجہ سے انہوں نے ایک سنسنی خیز مقابلہ جیت لیا۔ نئے قانون کے مطابق اگر دوبارہ ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوئی تو یہ رنز بلے باز کے حصے میں جائیں گے اور اس پر ڈیڈ بال کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوگا۔

اسی طرح یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل کے دوران ممکنہ کم روشنی کی صورت میں فلڈ لائٹس سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔

اسی طرح گزشتہ سال یکم اکتوبر 2022 سے نافذالعمل ہونے والی ترامیم میں سب سے اہم تبدیلی کراسنگ کے قانون میں ردوبدل تھا۔پہلے اس قانون کے تحت اگر بلے باز ہوا میں شاٹ مار کر رنز لیتا تھا اور کیچ پکڑا جاتا تھا تو کراسنگ کے نتیجے میں نان اسٹرائیکر اینڈ پر موجود بلے باز وکٹ پر آجاتا اور اگلی گیند کا سامنا کرتا۔

نئے قانون کے مطابق اب کسی بھی صورت میں نان اسٹرائیکر کراسنگ سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔اب کسی بھی بیٹسمین کے فیلڈ میں کیچ آؤٹ ہونے کے بعد نیا کھلاڑی ہی بالر کا سامنا کرے گا۔


کووڈ-19 کے دوران گیند پر تھوک لگانے کی ممانعت بھی ہوئی تھی جسے گزشتہ سال قانون کی شکل دے کر مستقل کردیا گیا تھا۔ اسی طرح بالر کے رن اپ کے دوران غیر ضروری نقل و حرکت پر قانون بنایا گیا تھا کہ اب نہ صرف اس گیند کو ڈیڈ بال قرار دیا جائے گا بلکہ بیٹنگ سائیڈ کو پانچ اضافی رنز ملیں گے۔

گزشتہ سال نان اسٹرائیکر کو گیند پھینکنے سے قبل رنز بنانے کی کوشش میں رن آؤٹ کرنے کو قانونی قرار دیا گیا تھا جس پر مختلف حلقوں نے اس کی مذمت کی۔ اس طرح کے سابقہ غیر قانونی رن آؤٹ کو 'مینکڈ' کہا جاتا ہے جو سابق انڈین کھلاڑی وینو مینکڈ سے منسوب ہے جنہوں نے سب سے پہلے اس طریقے سے حریف بلے باز کو آؤٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔

آخر میں بات اس پنلٹی کی جس کی وجہ سے اب بالرز اور کپتان دونوں اوورز جلدی پھینکے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں کامیاب تجربے کے بعد گزشتہ سال ون ڈے میں بھی مقررہ وقت میں اوورز مکمل نہ کرنے کی صورت میں آخری اوور میں اضافی فیلڈر کو سرکل کے باہر سے سرکل کے اندر بھیج کر فیلڈنگ ٹیم کو اس سے محروم کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ میچ جیت بھی سکتی ہے اور ہار بھی۔