ریمڈیسیویئر: کرونا وائرس کی نئی مؤثر دوا

ریمڈیسیویئر تیاری کے مراحل میں

طبی ماہرین کو توقع ہے کہ وائرس کے خلاف پہلے سے موجود ایک دوا کرونا انفکشن کی شدت کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اس دوا کا نام ریمڈیسیویئر ہے۔ سائنس دانوں کا ایک گروپ اسے پانسہ پلٹنے والی دوا کے طور پر دیکھ رہا ہے جب کہ کئی دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک عارضی سہارا ہے اور مؤثر دوا کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔

اب تک کے تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ریمڈیسیویئر سے مرض کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے۔ مگر یہ دوا اس لیے بڑے پیمانے پر استعمال نہیں کی جا سکتی, کیونکہ فی الحال یہ صرف اسپتال میں ڈاکٹر کی نگرانی میں دی جا سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف ایریزونا کالج آف میڈسن فونکس کے ایک کارڈیالوجسٹ اور پیتھالوجسٹ، ڈاکٹر ریمنڈ ووزلی کہتے ہیں کہ اس وقت ہر کسی کو یہ دوا نہیں مل سکتی، کیونکہ اس کی فراہمی بہت محدود ہے۔

محدود سپلائی کی وجہ سے امریکہ کی وفاقی حکومت نے یہ دوا 13 ریاستوں کے ان اسپتالوں کو فراہم کی ہے جہاں کوویڈ 19 کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس پر تجربات جاری رکھیں اور اس کے نتائج کا تبادلہ کریں۔

کرونا وائرس کے علاج کے سلسلے میں امریکہ میں ریمڈیسیوئیر کے پلاسیبو بھی استعمال کی جا رہی ہے۔ پلاسیو ایک بے ضرر کیمیکل ہے جس کا زیادہ تر مقصد نفسیاتی تسلی ہوتا ہے۔ اب تک حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق پلاسیبو کے مقابلے میں ریمڈیسیویئر سے مریض چار روز پہلے صحت یاب ہو جاتا ہے۔

امریکہ کے الرجی اور وبائی امراض کے قومی ادارے کے ڈائریکٹر انتھونی فاؤچی نے حال ہی میں یہ کہا ہے کہ بہت حد تک یہ امکان موجود ہے کہ ریمڈیسیویئر کرونا وائرس کی ایک مستند دوا کا درجہ حاصل کر لے گی۔

امریکہ کے خوراک اور ادویات کے قومی ادارے نے، جو دوا کے استعمال کی منظوری دیتا ہے، اسپتالوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ ریمڈیسیویئر کو ان مریضوں پر استعمال کر سکتے ہیں جن میں کرونا کی تصدیق ہو چکی ہو اور ان کے خون میں آکسیجن کی سطح گر گئی ہو۔

ریمڈیسیوئیر وائرس کی روک تھام کرنے والی ایک دوا ہے جو وائرس کا پھیلاؤ مکمل طور پر روکنے یا اس کی رفتار سست کرنے میں مدد دیتی ہے۔ وائرس قدرتی طور پر اپنے ڈی این کی نقل تیار کرتا ہے۔ وہ نقل اپنی دوسری نقل بناتی ہے اور اس طرح وائرس پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ریمڈیسیویئر ڈی این کے نقل تیار کرنے کے عمل کو مکمل یا جزوی طور پر روک دیتی ہے۔

ریمڈیسیویئر تیار کرنے والی کمپنی گلیڈ سائنسز نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی لیبارٹری میں جو تجربات کیے ہیں، اس کے مطابق دوا کی پانچ خوراکیں مرض دور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے وہ دوا کی پیداوار بڑھا رہی ہے اور جلد ہی دنیا بھر میں ڈھائی لاکھ مریضوں کے لیے دوا کا مکمل کورس فراہم کر دے گی۔ کمپنی کو توقع ہے کہ اس سال کے آخر تک وہ دوا کے دس لاکھ کورسز تیار کرنے کے قابل ہو جائے گی۔

ریمڈیسیویئر کا استعمال اس سے قبل چین نے ووہان میں کیا تھا تاہم وہاں نتائج تسلی بخش نہیں نکلے۔ ووہان وہ شہر ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس عالمی وبا کی ابتدا وہاں سے ہو ئی تھی۔ ووہان کے اسپتالوں میں بہت سے مریضوں کو پلاسیبو بھی دی گئی۔ تاہم، دونوں دواؤں کے اثرات ایک ہی جیسے تھے۔ جب کہ امریکہ میں کیے جانے والے تجربات میں یہ دوا اثر دکھا رہی ہے، جس سے سائنس دانوں کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ریمڈیسیویئر کا استعمال اس وقت زیادہ فائدہ مند ہے اگر اس کا استعمال مرض کے آغاز پر ہی شروع کر دیا جائے۔ لیکن، اس وقت یہ دوا صرف اسپتال میں زیر علاج کرونا کے مریضوں کو ہی دی جا رہی ہے۔ اسپتال میں مریض اس وقت آتا ہے جب وائرس کا پھیلاؤ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔

فی الحال، یہ دوا دو وجوہات کی بنا پر مریضوں کو گھر پر علاج کے لیے فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایک تو اس کی فراہمی محدود ہے اور دوسرا یہ رگ کے ذریعے مریض کے جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ریمڈیسیویئر، گولیوں اور ناک میں ڈالنے والے ڈراپس کی شکل میں دستیاب نہیں ہو گی،اس وقت تک یہ مریض کو گھر پر علاج کے لیے نہیں دی جا سکے گی۔

سائنسی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمالی اٹلی میں کم ازکم کرونا وائرس کے چار ایسے مریضوں کو ریمڈیسیویئر کی خوراکیں دی گئیں، جن کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی۔ وہ چاروں صحت یاب ہوئے اور اپنے قدموں پر چل کر اسپتال سے گئے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ریمڈیسیویئر ان مریضوں کو بچانے میں مدد دے سکتی ہے، جن کی حالت بہت خراب ہو، مگر یہ وائرس کو ختم نہیں کر سکتی۔ وائرس پر قابو پانے کے لیے ہمیں ویکسین بنانی ہو گی یا پھر کرونا کے اسی طرح بچ بچا کر رہنا ہو گا، جس طرح ہم ایچ آئی وی ایڈز کے ساتھ رہ رہے ہیں، یعنی سماجی فاصلے قائم رکھنا، چہرے کا ماسک پہننا اور اپنے ہاتھ صابن کے ساتھ دن میں کئی بار اچھے طریقے سے دھونا۔