بھارت کی نئی پارلیمنٹ میں نصب ہونے والے 'سنگول' پر تنازع

بھارت کے وزیر اعظم نریند رمودی نے اتوار کو نئی دہلی میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کر دیا۔ اس سلسلے میں ہندو مذہب کے مطابق تقریب کا اہتمام کیا گیا جو کئی گھنٹے تک چلی۔

اس موقع پر وزیر اعظم نے ایک ٹوئٹ میں اس امید کا اظہار کیا کہ اس شان دار عمارت سے ہر شہری بااختیار بنے گا۔ ملک کی خوشحالی میں اضافہ ہوگا اور اس کی اہلیت کو نئی طاقت ملے گی۔ آج کا دن ہم تمام اہل وطن کے لیے ناقابل فراموش ہے۔ نئی عمارت نے ہم سب کو فخر اور امیدوں سے بھر دیا ہے۔

لیکن اس سلسلے میں متعدد تنازعات بھی پیدا ہوئے۔ کانگریس سمیت حزب اختلاف کی 20 جماعتوں نے تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ ان کا استدلال تھا کہ صدر ملک کے آئینی سربراہ ہیں اور پارلیمنٹ کی تکمیل صدر، راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے ساتھ ہوتی ہے۔ لہٰذا نئی پارلیمنٹ کا افتتاح صدر دروپدی مورمو کے ہاتھوں ہونا چاہیے نہ کہ وزیر اعظم کے ہاتھوں۔

سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے کئی حوالوں سے حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو مذہب کی رسومات کے مطابق پارلیمنٹ کے افتتاح سے جمہوریت اور سیکولرازم کو دھچکہ پہنچا ہے۔ بھارت ایک سیکولر جمہوری ملک ہے ہندو اسٹیٹ نہیں۔ لہٰذا نئی پارلیمنٹ کا افتتاح ہندو مذہب کے مطابق نہیں ہونا چاہیے تھا۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس تاریخ کو پارلیمنٹ کا افتتاح کیا گیا وہی تاریخ احیاپسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایک نظریہ ساز ونائک دامودر ساورکر کا یوم پیدائش بھی ہے۔ اس وجہ سے بھی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جب 10 دسمبر 2020 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا تو اس وقت بھی انھوں نے ہندو مذہب کے مطابق تقریب کا انعقاد کرکے پوجا کی تھی۔


نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے موقع پر تمل ناڈو کے مٹھوں یعنی ہندو مندروں کے متعدد سادھوؤں اور گروؤں کو مدعو کیا گیا تھا جو زعفرانی لباس میں تھے اور جنہوں نے ہندو مذہب کے مطابق پوجا کرائی اور اشلوک اور منتر پڑھے۔ وزیر اعظم نے ان سادھوؤں سے آشیرواد بھی لیا۔

سینئر تجزیہ کار پیوش بیبلے کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ اس کا افتتاح صدر کے ہاتھوں ہونا چاہیے تھا نہ کہ وزیر اعظم کے ہاتھوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح ہندو مذہب کے مطابق تمام کارروائی کی گئی وہ سیکولر جمہوری اصولوں اور قدروں کے منافی تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت ایک سیکولر جمہوری ملک ہے جہاں آئین کے تحت حکومت چلتی ہے۔ آئین کو چھوڑ کر کسی مخصوص مذہب کے تحت سرکاری تقریبات کا انعقاد غلط ہے اور اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔

'رام مندر اور جمہوریت کے درمیان فرق ہونا چاہیے'

ستیہ ہندی ڈاٹ کام کے ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار آشوتوش بھی ہندو مذہب کے مطابق تقریب کے انعقاد پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اب بھارت سے جمہوریت کا رسمی طور پر خاتمہ ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ملک میں آمریت یا شہنشاہیت قائم ہو گئی ہے۔

انھوں نے ایک ٹی وی مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کی 20 جماعتوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ کسی بھی جمہوریت میں حزب اختلاف کی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے جتنی کہ حزب اقتدار کی۔

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی میں استاد اور سینئر تجزیہ کار ابھے دوبے نے وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں ایودھیا میں رام مندر کے سنگ بنیاد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رام مندر اور جمہوریت کے مندر میں فرق ہونا چاہیے۔

ان کے مطابق وزیر اعظم کے منصب پر فائز شخص کو سرکاری تقریبات میں مذہب کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ان کو اپنے مذہبی عقیدے کو اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہیے۔


یاد رہے کہ نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے تعلق سے سب سے زیادہ گفتگو ’سنگول‘ نامی ایک عصا کے سلسلے میں ہوئی۔ تمل ناڈو سے آنے والے سادھوؤں نے یہ عصا وزیر اعظم کو پیش کیا۔ مودی نے پہلے پوجا کی اس کے سامنے سجدہ کیا اور پھر اسے اسپیکر کی کرسی کے پیچھے ایک متعینہ مقام پر نصب کر دیا۔

نئی پارلیمنٹ کے افتتاح سے دو روز قبل تک کسی کو سنگول کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ جب وزیر داخلہ امت شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کو سنگول پیش کیا جائے گا جسے وہ اس کے مستحق مقام یعنی اسپیکر کی کرسی کے پاس نصب کریں گے۔

'سنگول' کے معاملے پر تنازع

ان کے اس بیان کے بعد میڈیا میں سنگول کے بارے میں گفتگو ہونے لگی۔ یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ جب 1947 میں انگریزوں نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو بھارت کا اقتدار سونپا تھا تو آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے انتقال اقتدار کی علامت کے طور پر یہ سنگول انہیں پیش کیا تھا۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ پنڈت نہرو کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نہیں بلکہ تمل ناڈو کے ادھینم مٹھ کے سادھوؤں نے رات میں پونے بارہ بجے ان کی رہائش گاہ پر جا کر انھیں سنگول پیش کیا تھا جسے بعد میں انھوں نے الہ آباد میں واقع اپنے مکان کے میوزیم میں رکھوا دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بی جے پی کا دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے بلکہ یہ ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے۔

لیکن بی جے پی کے رہنما آلوک وتس تجزیہ کاروں کی باتوں کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کانگریس نے سنگول کو اس کا جائز مقام دینے کے بجائے اسے میوزیم میں رکھوا دیا تھا۔ مودی حکومت نے اس کو اس کا جائز مقام عطا کیا ہے۔ بی جے پی کے دوسرے رہنماؤں نے بھی سنگول کے حوالے سے کانگریس پر تنقید کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے آلوک وتس نے اس بات کی بھی تردید کی کہ پارلیمنٹ کے افتتاح کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب ہندو مذہب کی رسومات کے مطابق منعقد کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تقریب میں صرف ہندو مذہب کے نہیں بلکہ 14 مذاہب کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا جنھوں نے اپنے اپنے مذہب کے مطابق پوجا یا عبادت کی۔

واضح رہے کہ اس تقریب میں جہاں ہندو رہنماؤں نے منتر اور اشلوک وغیرہ پڑھے وہیں عیسائی، سکھ، جین اور اسلام مذہب کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔ ایک قاری صاحب نے قرآن مجید کی سورہ رحمن کی تلاوت کی تھی۔

آلوک وتس کے مطابق ہندو مذہب کے مطابق تقریب کا انعقاد صرف سنگول کے تعلق سے کیا گیا۔ چونکہ سنگول ایک مندر سے آیا تھا اور وہ ہندو مذہب کی رسوم کا حصہ ہے اس لیے اس کی تنصیب سے قبل پوجا کی گئی۔


لیکن پیوش بیبلے کا خیال ہے کہ سنگول کا تعلق ہندو مذہب سے کم اور راجاؤں اور بادشاہوں سے زیادہ ہے۔ ماضی میں جب کوئی حکمراں دوسرے کو اقتدار منتقل کرتا تھاتو علامت کے طور پر سنگول پیش کرتا تھا۔ یہ رسم مسلم بادشاہوں کے دور میں بھی رہی ہے اور راجاؤں کے دور میں بھی۔لہٰذا اس کو اب لوک سبھا اسپیکر کی کرسی کے پیچھے نصب کرنا بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے۔

تجزیہ کار نیرا چنڈھوک نے نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے لیے اپنے مضمون میں سنگول پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق سنگول نامی عصاء ایک ایسی علامت ہے جو ایک بادشاہ یا راجہ کو اپنی رعایا یا پرجا پر حکمرانی کا خدائی حق دیتا ہے۔ اس سے راجہ کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے۔

ان کے بقول یہ عصا حکمران کے ڈھیلے ڈھالے اختیارات کو ایک اتھارٹی میں تبدیل کرتا ہے۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ بادشاہ یا راجہ جو کہے اسے ماننا ہے۔ کیونکہ اسے جو اختیار ملا ہے وہ خدا سے ملا ہے کسی انسان سے یا کسی زمینی طاقت سے نہیں۔ اور کوئی بھی اس کے فرمان کو چیلنج نہیں کر سکتا۔

سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پارلیمنٹ عوام کی آواز بلند کرنے کی جگہ ہے۔ لیکن وزیر اعظم نے اس کا افتتاح اس طرح کیا جیسے کہ ان کی تاجپوشی ہوئی ہو۔

سنگول کو ہندی زبان میں ’راج دنڈ‘یعنی ’حکومت کا عصائے تعذیبی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جس حکمران کے قبضے میں سنگول ہوتا ہے اسے سزا دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔