ڈیوا سروس کے نامہ نگار، مکرم خان عاطف اُن 82 پیشہ ور صحافیوں میں سے ایک تھے جو 2012ء کے دوران پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے
واشنگٹن —
پیر کے روز واشنگٹن میں واقعہ ’نیوزیئم‘ میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں کی آویزاں فہرست میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ’وائس آف امریکہ‘ کے صحافی، مکرم خان عاطف کے نام کا باضابطہ اندراج ہوا۔
وہ اُن 82 پیشہ ور صحافیوں میں شامل تھے جو 2012ء کے دوران فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
مکرم خان عاطف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، ’وائس آف امریکہ‘ کے ڈائریکٹر، ڈیوڈ اینسر نے کہا کہ کئی اعتبار سے یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا، لیکن یہ بات ہمیں تقویت بخشتی ہے کہ ہم فخر سے اپنے ایک ساتھی کی یاد منا رہے ہیں، جن کا زمانہ معترف ہے۔
اِس موقعے پر، ’این بی سی نیوز‘ کے بیرون ملک نامہ نگاروں کے شعبے کے سربراہ، رچرڈ اینگل کلیدی مقرر تھے۔
اُنھوں نے پریس کے نیوز میوزیئم میں ہونے والی اِس خصوصی تقریب میں شریک خاندان کے افراد، احباب اور ساتھیوں سے خطاب میں کہا کہ صحافی خطرات سے ٹکراتے ہیں، اِس تگ و دو کی خاطر کہ دنیا کو سمجھا جائے اور ہونے والے تغیر کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس، اینگل کو شام میں پانچ روز تک اغوا کیا گیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ اپنی جانیں دینے والے یہ نامہ نگار اپنے پیشے سے محبت کرتے تھے، اور اُسی کے لیے اُنھوں نے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیا۔
اُن کے بقول، ’بالکل ایک سپاہی کی طرح، وہ سینہ سپر تھے، اور اُن کے ہاتھوں میں قلم تھا، جس کی اُنھوں نے لاج رکھی‘۔
قتل ہونے سے قبل عاطف نے جنوری 2012ء میں پشاور کی ایک مسجد میں نماز ادا کی۔ طالبان نے اُن کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
عاطف ’وائس آف امریکہ‘ کے ڈیوا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مقامی نامہ نگار تھے۔ اس سے قبل اُنھیں بارہا دھمکیاں مل چکی تھیں، لیکن اُنھوں نے پاکستان کےاِس شمال مغربی علاقے کےپہاڑی خطے سے خبریں بھیجنے سے باز آنے سے انکار کردیا تھا۔
’نیوزیئم‘ کا 2008ء میں افتتاح ہوا، اور اِس میں اب تک 2244نامہ نگاروں، فوٹوگرافروں، براڈ کاسٹروں اور خبروں کے منتظمین کے نام درج ہیں، جنھوں نے اپنی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جان دی۔
تقریب کے اختتام پر، خاندان کے افراد نے فاتحہ کی اور یادگار پر پھولوں کا تحفہ رکھا۔
وہ اُن 82 پیشہ ور صحافیوں میں شامل تھے جو 2012ء کے دوران فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
مکرم خان عاطف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، ’وائس آف امریکہ‘ کے ڈائریکٹر، ڈیوڈ اینسر نے کہا کہ کئی اعتبار سے یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا، لیکن یہ بات ہمیں تقویت بخشتی ہے کہ ہم فخر سے اپنے ایک ساتھی کی یاد منا رہے ہیں، جن کا زمانہ معترف ہے۔
اِس موقعے پر، ’این بی سی نیوز‘ کے بیرون ملک نامہ نگاروں کے شعبے کے سربراہ، رچرڈ اینگل کلیدی مقرر تھے۔
اُنھوں نے پریس کے نیوز میوزیئم میں ہونے والی اِس خصوصی تقریب میں شریک خاندان کے افراد، احباب اور ساتھیوں سے خطاب میں کہا کہ صحافی خطرات سے ٹکراتے ہیں، اِس تگ و دو کی خاطر کہ دنیا کو سمجھا جائے اور ہونے والے تغیر کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس، اینگل کو شام میں پانچ روز تک اغوا کیا گیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ اپنی جانیں دینے والے یہ نامہ نگار اپنے پیشے سے محبت کرتے تھے، اور اُسی کے لیے اُنھوں نے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیا۔
اُن کے بقول، ’بالکل ایک سپاہی کی طرح، وہ سینہ سپر تھے، اور اُن کے ہاتھوں میں قلم تھا، جس کی اُنھوں نے لاج رکھی‘۔
قتل ہونے سے قبل عاطف نے جنوری 2012ء میں پشاور کی ایک مسجد میں نماز ادا کی۔ طالبان نے اُن کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
عاطف ’وائس آف امریکہ‘ کے ڈیوا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مقامی نامہ نگار تھے۔ اس سے قبل اُنھیں بارہا دھمکیاں مل چکی تھیں، لیکن اُنھوں نے پاکستان کےاِس شمال مغربی علاقے کےپہاڑی خطے سے خبریں بھیجنے سے باز آنے سے انکار کردیا تھا۔
’نیوزیئم‘ کا 2008ء میں افتتاح ہوا، اور اِس میں اب تک 2244نامہ نگاروں، فوٹوگرافروں، براڈ کاسٹروں اور خبروں کے منتظمین کے نام درج ہیں، جنھوں نے اپنی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جان دی۔
تقریب کے اختتام پر، خاندان کے افراد نے فاتحہ کی اور یادگار پر پھولوں کا تحفہ رکھا۔