آکسفورڈ-ایسٹرا زینیکا ویکسین تیار کرنے والی ٹیم میں شامل ایک سائنس دان نے کہا ہے کہ مستقبل کی وبائی بیماریاں کووڈ-19 سے بھی زیادہ مہلک ہو سکتی ہیں۔ اس لیے کرونا وائرس کے حملے سے ہم نے اب تک جو سبق حاصل کیا ہے، اسے بھلانا نہیں چاہیے اور دنیا کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اگلے وائرل حملے کے لیے تیار ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق کرونا وائرس اب تک دنیا بھر میں 52 لاکھ 60 ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کو نگل چکا ہے۔
مہلک عالمی وبا کے پھیلاؤ نے دنیا بھر میں معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں جس سے روزگار اور عالمی تجارت میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں اور دنیا کو کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رچرڈ ڈمبل بی لیکچر میں پروفیسر سارا گلبرٹ کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ اگلی لہر زیادہ تباہ کن ہو گی۔ وہ زیادہ تیزی سے پھیلنے والی، یا زیادہ مہلک یا پھر اس میں یہ دونوں پہلو ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی وائرس نے ہماری زندگیوں اور ذریعہ روزگار کے لیے خطرات پیدا کیے۔
SEE ALSO: کرونا کی اومکرون قسم 38 ممالک میں پھیل گئی، نئے ویریئنٹ کے خلاف ویکسین کی افادیت پر تحقیق جارییونیورسٹی آف آکسفورڈ کے شعبہ وائرالوجی میں تدریس و تحقیق سے وابستہ گلبرٹ کا کہنا تھا کہ اب دنیا کو یہ بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی اگلے وائرس کے مقابلے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سلسلے میں جو پیش رفت کی ہے اور جو علم حاصل کیا ہے، اسے ہرگز رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔
صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 کی عالمگیر وبا سے نمٹنے کی کوششیں اب تک غیر ہموار اور منقسم رہی ہیں جس کی وجہ کم آمدنی والے ممالک کی ویکسین کے حصول کے لیے محدود رسائی ہے، دوسری جانب امیر ملکوں کے دولت مند اور صحت مند افراد ویکسین کی بوسٹر خوراکیں لگوا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
صحت کے عالمی ادارے کی جانب سے کووڈ- 19 کے، جسے سائنسی اصطلاح میں سارس- کو وی-2 کہا جاتا ہے، مقابلے کے لیے مقرر کیے جانے والے پینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے مستقل بنیادوں پر فنڈز فراہم کرنے اور ایک نئے معاہدے کے ذریعے وباؤں کے بارے میں زیادہ بہتر طریقے سے تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں سامنے آنے والی ایک نئی تجویز میں اس ریسرچ کے لیے سالانہ 10 ارب ڈالر فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
کووڈ-19 کے اولین مریض سب سے پہلے 2019 کے آخر میں چین کے ایک شہر ووہان میں رپورٹ ہوئے تھے، جب کہ اس وائرس پر قابو پانے کی ویکسینز ریکارڈ مدت میں تیار کی گئیں ہیں۔
گلبرٹ کا کہنا ہے کہ کرونا کی نئی تبدیل شدہ جینیاتی قسم اومکرون میں ایسے پروٹین موجود ہیں جن کے متعلق ہم جانتے کہ وہ وائرس کے پھیلنے کی رفتار میں اضافہ کرتے ہیں۔
گلبرٹ کا مزید کہنا تھا کہ اس میں آنے والی اضافی تبدیلیوں کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ویکسین وائرس کے خلاف جو اینٹی باڈٰیز تیار کرتے ہیں، یا دوسری جینیاتی اقسام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز امکرون کے خلاف مدافعت میں کم مؤثر ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ہمیں اس جینیاتی قسم کے متعلق مزید معلومات حاصل نہیں ہو جاتیں، ہمیں محتاط رہنا چاہیے اور اس تبدیل شدہ وائرس کا پھیلاؤ سست بنانے کے لیے ہر قدم اٹھانا چاہیے۔