امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ باغی گروپ مختلف ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور اس کا پتہ چلانا آسان نہیں۔ حال ہی میں شمالی نائجیریا کے چھوٹے چھوٹے قصبوں پر جو حملے ہوئے ان میں پولیس اسٹیشنوں، گرجا گھروں اور ایک فوجی اڈے کو نشانہ بنایا گیا۔
ا ن حملوں میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ہیومین رائٹس واچ کے مطابق 2009ء کے بعد نائجیریا میں کسی ایک دن میں مرنے والوں کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ان حملوں کا الزام عسکریت پسند اسلامی فرقے بوکو حرام پر لگایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فرقے نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ لیکن جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں مطالعۂ افریقہ پروگرام کے ڈائریکٹر پیٹر لیوئیس کے لیے اس گروپ کے بظاہر عجیب و غریب طرز عمل کو سمجھنا اب بھی مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان میں بڑے پیمانے پر حملوں کی منصوبہ بندی کی صلاحیت موجود ہے اور وہ ان میں سے کچھ کو ایک دوسرے سے مربوط کر سکتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی منظم حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘
یہ باغی تقریباً ایک عشرے سے منظرعام پر ہیں لیکن اب تک ان کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ میڈیا اور نائجیریا کے سرکاری عہدے دار ان باغیوں کے لیے ہوسا زبان کی اصطلاح بوکو حرام استعمال کرتے ہیں جس کا ترجمہ کم و بیش یہ ہوگا کہ مغربی تعلیم حاصل کرنا گناہ ہے ۔
باغیوں کے کئی ترجمانوں نے کہا ہے کہ وہ شمالی نائجیریا میں ایک الگ مملکت کے لیے جنگ کر رہے ہیں جس میں شرعی قانون کے تحت حکومت کی جائے گی۔
اندازے کے مطابق، اس تنظیم کے ایسے ارکان کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں جو مسلح کارروائیوں میں حصہ لے سکتے ہیں، اور ان میں قیادت کا کوئی مرکزی ڈھانچہ نہیں۔
2009ء سے اب تک، ان باغیوں نے اکثر نائجیریا کی پولیس اور فوج پر حملے کیے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے ارکان کو چھڑانے کے لیے قید خانوں پر بھی حملے کیے ہیں، پیسہ لینے کے لیے بنکوں کو نشانہ بنایا ہے اور ابوجا میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کواٹرز پر بمباری میں جانی نقصان پہنچایا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ صرف اسی ایک سال کے دوران ان کے حملوں میں 400 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ نائجیریا کے حکومت نے جوابی کارروائی کے طور پر شمالی نائجیریا میں فوج کی تعداد بڑھا دی ہے اور بعض صورتوں میں ہتھیاروں میں تلاش کے لیے گھر گھر تلاشی لی ہے۔
گذشتہ ہفتے مییدوگری کے شہر میں ایسی کارروائی کی گئی۔ افریقہ آن لائن بلیٹن کے ایڈیٹر ویلیئم منٹر کہتے ہیں کہ حکومت نے سیکورٹی کی جو کارروائیاں کی ہیں ان سے اس گروپ میں مزید لوگوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ 2009 میں اس گروپ کے خلاف جو کارروائی کی گئی اس کے بارے میں انسانی حقوق کی رپورٹوں میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ سیکورٹی فورسز نے بہت بڑی تعداد میں بے گناہ شہریوں کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اس طرح اس گروپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
شمال کی اس بغاوت کے لیے2009 کا سال بہت اہم تھا۔ اس سال بوکو حرام کے لیڈر محمد یوسف نے ایک خونریز بغاوت کی قیادت کی جسے فوج نے کچل دیا۔ یوسف کے کئی ساتھی مردہ پائے گئے اور وہ اسی سال پولیس کی تحویل میں ہلاک ہو گیا۔
اس وقت ان ہلاکتوں کے لیے سیکورٹی فورسز کو الزام دیا گیا۔ پانچ پولیس افسروں پر اس سال کے شروع میں قتل کے الزام عائد کیے گئے اور ان کے کیسوں کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
امریکہ کی کونسل آن فارن ریلیشنز کے جان کیمپبل کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اس قسم کی سخت کارروائیوں سے باغیوں کے لیے ہمدردی کےجذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ’’ان کے لیے بہت سے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا ہونا ضروری نہیں۔ اتنا کافی ہے کہ ایسی کمیونٹی موجود ہوجو ان کی کارروائیوں میں مداخلت کرنا نہ چاہے۔‘‘
فی الحال صدر گڈلک جونتھن ایسی حکمت عملی پر کاربند ہیں جس میں سیکورٹی بہت اہم ہے کیوں کہ اس سال کے شروع میں بوکو حرام کے لیڈروں نے تشدد کو ترک کرنے اور مذاکرات شروع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن نائجیریا کی فورسز کو اس گروپ کا سراغ لگانے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ اس کے تنظیمی ڈھانچے کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں اور اس کے حامیوں کی نشاندہی مشکل ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ باغی آسانی سے ہمسایہ ملکوں نائیجر، کیمرون اور چاڈ میں آ جا سکتے ہیں کیوں کہ ان ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت آسان نہیں اور علاقے کی آبادیوں میں ان کے لیے حمایت موجود ہے۔
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ باغیوں کے دعووں اور نائجیریا اور امریکہ کے عہدے داروں کے انتباہ کے باوجود اب تک ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ نائجیریا کے اسلامی انتہا پسندوں کے اپنی سرحدوں کے نزدیک یا باہر کی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کوئی رابطے قائم ہوئے ہیں۔