شمالی کوریا جو میزائل لانچ کرنے والا ہے، اس کے بارے میں جن ممتاز شخصیتوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے، ان میں تازہ ترین شخصیت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے’’میں شمالی کوریا پر زور دیتا ہوں کہ وہ ایسی ہر کارروائی سے باز رہے جس سے جزیرہ نما کوریا میں امن اور استحکام کو نقصان پہنچتا ہو اور جو بین الاقوامی برادری کی خواہشات اور امنگوں کے خلاف ہو۔‘‘
بان کہتے ہیں کہ اس لانچ سے واضح طور پر سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہو گی اور وہ اس معاملے کو اگلے ہفتے یہاں سیول میں بین الاقوامی نیوکلیئر سیکورٹی کی سربراہ کانفرنس میں اٹھائیں گے ۔
شمالی کوریا کہتا ہے کہ خود مختار مملکت کی حیثیت سے اسے سائنسی سیٹلائٹ خلا میں پہنچانے کا حق حاصل ہے ۔ لیکن اس ملک پر جس نے خود کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر رکھا ہے، اپنے نیوکلیئر اور میزائل کی تیاری کے پروگراموں کی وجہ سے پابندیاں عائد ہیں۔ اس تشویش کے پیشِ نظر کہ شمالی کوریا اپنے کئی مرحلوں والے میزائلوں پر نیوکلیئر وار ہیڈ نصب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس پر خلا میں میزائل چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔
شمالی کوریا کے اعلامیے میں جنوبی کوریا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کی دھمکی دی گئی ہے اگر سیول میں اگلے ہفتے کی اعلیٰ سطح کی کانفرنس میں شمالی کوریا کے نیوکلیئر پروگرام پر بات چیت کی گئی۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ شمالی کوریا کی طرف سے اس قسم کے سخت بیانات پر فوری تشویش نہیں ہونی چاہیے لیکن بہتر یہی ہے کہ محتاط رویہ اختیار کیا جائے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے سینیئر فیلو ویلیم ٹوبے امریکی انتظامیہ کی نیشنل سیکورٹی کونسل میں تین بار خدمات انجام دے چکےہیں ۔ وہ کہتے ہیں’’وہ ہر ہفتے احمقانہ باتیں کہتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی وہ کوئی احمقانہ کارروائی کر بھی بیٹھتے ہیں۔ انھوں نے جنوبی کوریا کے بحری جنگی جہاز کو ڈبو دیا تھا۔ انھوں نے جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر بمباری کی۔ انھوں نے ماضی میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں۔ لہٰذا شمالی کوریا کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیئے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کتنی تیزی سے اس پر عمل کریں گے۔‘‘
یہاں اس ہفتے کی کانفرنسوں میں بین الاقوامی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ بات یقینی ہے کہ شمالی کوریا کے میزائل لانچ کرنے کے اعلان سے مستقبلِ قریب میں سفارتکاری اور اس کے نیوکلیر پروگرام کے بارے میں چھ ملکوں کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے امکانات کو نقصان پہنچا ہے ۔
واشنگٹن کی نظر میں، اس سے وہ سمجھوتہ برباد ہو گیا ہے جو گذشتہ مہینے شمالی کوریا کے ساتھ کیا گیا تھا جس کے تحت امریکہ نے شمالی کوریا کے نیوکلیئر پروگرام کو جزوی طور پر منجمد کرنے کے عوض، اسے غذائی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔
سی آئی اے کی سابق سینیئر تجزیہ کار سوئی می ٹیری کے خیال میں، شمالی کوریا کے ساتھ یہ عام سی بات ہے کہ وہ پہلے سمجھوتے کرتا ہے، اور پھر ایسی کارروائیاں کرتا ہے جن سے وہ سمجھوتے عملی طور پر سبو تاژ ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ ہماری کوششیں بے نتیجہ رہیں گی۔
اس کے بجائے وہ کہتی ہیں’’ہمیں امریکہ اور جنوبی کوریا کی جنگی مشقیں جاری رکھنی چاہئیں، پابندیوں میں اضافہ کرنا چاہیئے، اور ایک بار پھر چین کے پاس جانا چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ وہاں اب قیادت تبدیل ہو چکی ہے۔ آپ کو اس بارے میں ضرور کچھ کرنا چاہیئے۔‘‘
بعض سفارتکار، تجزیہ کار اور انٹیلی جنس کمیونٹی کے ارکان کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کی فوج میں سخت موقف رکھنے والے لوگ ان کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں جو اس کے سفارتکار نیک نیتی سے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں امریکی کانگریس کی سابق مشیر شارون سقواسونی اب سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’شمالی کوریا کے ان تازہ ترین اقدامات پر ان لوگوں کو بھی حیرت ہوئی ہے جو اس پر ایک طویل عرصےسے نظر رکھتے رہے ہیں۔ کم جونگ اِل کے انتقال سے قبل، گذشتہ سال کے آخر میں میں پیانگ یانگ میں تھی ۔ حکومت میں ہم نے جن لوگوں سے بات کی وہ تعاون پر آمادہ نظر آتے تھے ۔ لہٰذا میں سمجھتی ہوں کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جو شمالی کوریا میں کم جونگ اُن کے بر سرِ اقتدار آنے سے پہلے شروع ہوئی تھی۔‘‘
نوجوان کم دسمبر میں اپنے والد کے انتقال کے بعد بر سرِ اقتدار آئے تھے ۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ تبدیلی کا عمل بحفاظت مکمل ہو چکا ہے۔ لیکن سی آئی اے کی سابق تجزیہ کار سوئی می ٹیری اس خیال سے متفق نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کم جونگ اُن کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں ہوئی ہے اور شمالی کوریا اور زیادہ غیر مستحکم ہو گیا ہے ۔
جنوبی کوریا کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی دور مار مزائلوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر، وہ امریکہ کے ساتھ ایک سمجھوتے کو آخری شکل دینے پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت جنوبی کوریا کے ہتھیار زیادہ فاصلے تک کام کر سکیں گے۔ آج کل، جنوبی کوریا کے بلسٹک مزائل 300 کلو میٹرز تک جا سکتے ہیں اور ان پر زیادہ سے زیادہ 500 کلو گرام وزنی ہتھیار لادے جا سکتے ہیں۔