پہلی دفعہ گہرائی میں تابکاری کی جانچ کے بعد علم ہوا کہ یہاں تابکاری کی سطح 8 لاکھ گنا زیادہ ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ سن 1989 میں ناروے کی ساحل سے دور ڈوبنے والی روس کی جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوز سے خطرناک درجے کی تابکاری ہوئی ہے۔
جوہری توانائی سے چلنے والی ’کوم سومولیٹس‘ نامی جنگی آبدوز، ’ٹائٹینیم‘ سے بنی ہوئی تھی، اور یہ دو ایٹمی تارپیڈو سے لیس تھی۔
روس اور ناروے، دونوں سن 1989 سے لیکر اب تک ہر سال یہاں تابکاری کی سطح کی جانچ کرتے ہیں۔ تاہم، پہلی دفعہ گہرائی میں تابکاری کی جانچ کی گئی ہے۔ جانچ کے بعد علم ہوا کہ یہاں تابکاری کی سطح 8 لاکھ گنا زیادہ ہے۔
اس نئی جانچ کی قیادت کرنے والی ٹیم کی لیڈر، ایلیز ہیڈل کا کہنا ہے کہ ہم اس مقام کے قریب مسلسل نگرانی کرتے رہیں گے۔ ہم کیمروں کے ذریعے نگرانی کریں گے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کہیں تابکاری دوبارہ تو نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہم مزید تجربات کریں گے۔
ہیلڈل کا کہنا ہے کہ آبدوز 1680میٹر کی گہرائی میں ڈوبی ہوئی ہے اور یہاں بہت کم مچھلیاں پائی جاتی ہیںِ اور اتنے گہرے پانی میں تابکاری جلد ہی اپنی طاقت کھو دیتی ہے۔
’کوم سومولیٹس‘ میں آگ بھڑک اٹھی تھی، اس پر سوار عملے کے 69 ارکان میں سے 42 ہلاک ہو گئے تھے۔
چند روز پہلے، روس کی ایک اور جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ روسی بحریہ کے14 افراد اس حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن یہ آبدوز، سویرو موسک نامی بندرگاہ تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔
روس کے وزیر دفاع سرگئی سوئےگو کا کہنا تھا کہ آبدوز کو چاروں طرف سے سر بمہر کر دئے جانے سے پہلے، عملے کے افراد کو باہر نکال لیا گیا تھا۔
وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا تھا کہ آبدوز کو دوبارہ زیر استعمال لایا جا سکے گا، اور عملے کے افراد نے آبدوز کو بچانے کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے تھے۔
یہ تو واضح نہیں ہے کہ حادثے کے وقت عملے کے کتنے افراد آبدوز پر سوار تھے۔ تاہم، روسی حکومت کا کہنا ہے کہ کچھ افراد بچ جانے میں کامیاب رہے۔
وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ آبدوز میں آگ اس وقت لگی، جب یہ روس کے پانیوں میں معلومات اکٹھا کرنے میں مصروف تھی۔
وزارت دفاع نے حادثے کے دوسرے دن تک اس اس کی اطلاع نہیں دی، جس کی وجہ سے چند ناقدین کا کہنا ہے کہ روس پوری بات نہیں بتا رہا۔
اُن پانیوں میں تابکاری کا سراغ لگانے والے ناروے کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انہیں کسی بھی قسم کی غیر معمولی تابکاری کا سراغ نہیں ملا۔