اوباما انتظامیہ نے دہشت گردی کی روک تھام اور تجارت کے فروغ کے لیے بھارت کے ساتھ تعاون اور دیگر عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیاہے۔ دنیا کی اِن دو بڑی جمہوریتوں کے درمیان جمعرات کے روز واشنگٹن میں اعلی ٰ سطحی مذاکرات شروع ہوئے۔
صدر اوباما نے جمعرات کے روز واشنگٹن میں کہا کہ امریکہ بھارت تعلقات ان کی‘ اولین ترجیحات’ میں شامل ہیں اور وہ نومبر میں بھارت کے اپنے دورے کے منتظر ہیں۔
صدر کے الفاظ میں: ‘امریکہ دنیاکے ساتھ اپنے جامع تعلقات کے سلسلے میں 21 ویں صدی کے جن اہم مراکز کے ساتھ اپنا تعاون بڑھانے کواہمیت دیتا ہے ، ان میں بھارت شامل ہے۔’
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے امریکہ بھارت اسٹرٹیجک مذاکرات کا افتتاح کرتے ہوئے بھارت کو ایک ابھرتی ہوئی عالمی اور معاشی قوت کے طورپر سراہا۔
ہلری کلنٹن نے دو طرفہ تعلقات کے ایک نئے مرحلے کی شروعات کے لیے کہتے ہوئے دونوں ملکوں پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کے بارےمیں شکوک و شہبات دور کریں۔
اُن کے بقول: ‘کچھ بھارتیوں کو یہ شہبات ہیں کہ امریکہ بھارت کو صرف ، یا خصوصی طورپر افغانستان اور پاکستان کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یا یہ کہ ہم افغانستان سے اپنی واپسی میں عجلت سے کام لیں گے اور بھارت کو بعد کی صورت حال سے نمٹنے لیے چھوڑ دیں گے۔’
اُنھوں نے مزید کہا: ‘اور امریکہ میں یہ شہبات پائے جاتے ہیں کہ بھارت نے اپنے علاقائی یا عالمی معاملات میں اپنا کردار پوری طرح سے ادا نہیں کیا ہے یا یہ کہ وہ مزید ترقی کے لیے درکار اقتصادی اصلاحات نہیں کرے گا۔’
بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے سلسلے میں دونوں ملکوں کی اہم ذمہ داریاں ہیں خاص طورپر دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کےحوالے سے۔
اُنو ں نے کہا کہ دہشت گردوں نے دونوں ملکوں کو اپنا ہدف بنایا ہے اور اُنولں نے 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی چھان بین میں مدد کرنے پر امریکہ کا شکریہ اداکیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اگلا منطقی اقدام بھارت کو ان افراد تک رسائی کا
اختیار دینے کا ہوگا جنہیں امریکہ نے مقدمے کےسلسلے میں زیر حراست رکھا ہوا ہے۔
اُنوےں نے ایک ماہ قبل نیویارک کے ٹائمز سکوائر میں کار بم دھماکے کی کوشش کی طرف اشارہ کیا جس کا الزام پاکستانی نژاد امریکی شہری پر عائد کیا گیا ہے۔ مسٹر کرشنا نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کی روک تھام کی کوششوں کا مرکز صرف القاعدہ رہی ہے ۔
کرشنا کے الفاظ میں: ‘اِس حقیقت کے پیش نظر کہ وہ گروپس جو نفرت اور تشدد کا پرچار کرتے ہیں، ایک دوسرے کے مزید قریب آرہے ہیں، ایک دوسرے کے وسائل پہلے سے زیادہ استعمال کررہے ہیں اور متحد ہوکرکام کررہے ہیں، ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو لیزر کی طرح اُن میں سے ہر ایک پر مرکوز کریں۔’
مسٹر کرشنا نے کہا کہ بھارت اپنے پڑوسی ملک پاکستان سے مذاکرات کا خواہاں ہے تاکہ دونوں جوہری حریفوں کے درمیان امن اور تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔ اُنومں نے کہا کہ وہ جولائی میں اپنے پاکستانی ہم منصب سے اسلام آباد میں ملاقات کریں گے۔
صدر اوباما نےکہاہے کہ امریکہ بھارت تعلقات اُن کی‘ اولین ترجیحات’ میں شامل ہیں اور وہ نومبر میں بھارت کے اپنے دورے کے منتظر ہیں