وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ پیر کو نیویارک میں صدر براک اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات ہوگی، جس میں ایجنڈے پر یوکرین کا معاملہ سرفہرست سے۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری، جوش ارنیسٹ کے بقول، ’میں مخاصمانہ انداز کی سی رائے زنی نہیں کروں گا۔ تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور روس کے مابین کچھ انتہائی سنجیدہ معاملات ہیں، جو زیر غور آئیں گے؛ اور یوکرین اور دنیا بھر کے دیگر مقامات پر روس کے ساتھ اہم تشویش کے معاملات اٹھانے میں صدر کوئی لحاظ نہیں کریں گے‘۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’صدر اوباما صدر پیوٹن سے بات چیت میں مِنسک سمجھوتے پر عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیں گے، جس کا مقصد
یوکرین کے ساتھ جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے‘۔
دونوں سربراہان کی اس ملاقات سے قبل، امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے جمعرات کو یوکرین کے اپنے ہم منصب کی میزبانی کی، جس میں یوکرین کے بارے میں امریکہ کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
وزیر دفاع، ایش کارٹر کے بقول، ’آج، ہم نے ایک تعمیری ملاقات کی جس کی بنیاد برسلز میں ہونے والی گفتگو تھی۔ کوشش کی گئی کہ ہم عزم کے اظہار کو فروغ دیا جائے اور اس کا اعادہ کیا جائے، جن میں یوکرین کی مسلح افواج اور سرحدی محافظ فورس کو سکیورٹی سے متعلق جاری اعانت کا معاملہ بھی شامل تھا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ اطلاعات کہ یوکرین میں تشدد کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے، حوصلہ افزا ہیں۔ تاہم، ابھی تک ہمیں یہ اطلاعات ہیں کہ روس اور علیحدگی پسند منسک سمجھوتے کے عزم کی مکمل پابندی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند دھڑے، جنھیں یوکرین میں عدم استحکام جاری رکھنے کے لیے روس سے کلیدی فوجی حمایت فراہم ہوتی ہے، جب کہ روس پر لاگو مغربی تعزیرات سے روسی معیشت کمزور تر ہو رہی ہے۔
توقع ہے کہ اوباما اور پیوٹن ملاقات میں شام میں روس کی فوجی موجودگی میں اضافے کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔
روس نے کہا ہے کہ وہ داعش اور انتہا پسندی کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن، شام کے بارے میں اُس کے طویل مدتی منصوبے ابھی غیر واضح ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ صدر اوباما پیوٹن پر یہ بات واضح کردیں گے کہ شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت میں اضافہ غیر سودمند ہے۔