امریکہ 300 فوجی مشیر عراق روانہ کرے گا: صدر اوباما

صدر اوباما نے کہا ہے کہ باغیوں کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں عراقی سکیورٹی افواج کی مدد کے لیے، 300 فوجی مشیر عراق روانہ کیے جا رہے ہیں
اِس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ امریکہ اپنی فوج عراق نہیں بھیجے گا، صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کو چاہیئے کہ ’فرقہ وارانہ تقسیم کو فوری طورپر ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدام کریں‘؛ اور یہ کہ موجودہ ’بحران کے حل کے لیے خود عراقیوں کو آگے بڑھنا ہوگا‘۔

تاہم، اُنھوں نے کہا کہ باغیوں کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں عراقی سکیورٹی افواج کی مدد کے لیے، 300 فوجی مشیر عراق روانہ کیے جا رہے ہیں۔

اُنھوں نے یہ بات جمعرات کو وائٹ ہاؤس سے عراق کے بارے میں اپنے بیان اور اخباری کانفرنس میں کہی۔

اُنھوں نے کہا کہ وزیر خارجہ جان کیری اسی ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے، جہاں وہ خطے کے اتحادیوں سے بات چیت کریں گے۔

امریکی صدر نے کہا کہ ’عراق میں خانہ جنگی کے خدشات کو روکنے کے لیے لازم ہے کہ وزیر اعظم مالکی آگے بڑھیں اور سنی اور کرد برادریوں سے مفاہمت کا سلسلہ قائم کریں‘۔


اُنھوں نے کہا کہ ’اولین ضرورت‘ اِس بات کی ہے کہ عراقی حکومت ’بداعتمادی‘ کے ماحول کو فوری طور پر دور کرے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ‘امریکہ اِس بات کا تعین نہیں کر سکتا کہ حکومت میں کون شریک ہو‘۔

صدر نے کہا کہ ’امریکہ کسی ایک فرقے کی مدد کے لیے دوسری کو زد میں نہیں لائے گا‘۔

بقول اُن کے، ’امریکی لڑاکا فوجیں دوبارہ عراق جاکر نہیں لڑیں گی۔ ہمارے پاس کوئی آسان حل موجود نہیں جس سے ہزاروں کی تعداد میں فوجی روانہ کرکے اس مسئلے سے نبردآزما ہوا جا سکے، جب کہ پہلے ہی ہم نے عراق میں اپنی جانیں نثار کیں اور اپنا خزانہ پیش کیا۔ بالآخر، یہ ایسا معاملہ ہے جس کا حل خود عراقیوں کے ہی پاس ہے‘۔

صدر اوباما نے کہا کہ عراق کی جنگ کے دوران، 4500امریکی فوجیوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

اِس سے قبل، جمعرات ہی کے روز، صدر نے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم سے مشاورت کی، جس میں شدت پسندوں سے مقابلے کے لیے عراق کی مدد سے متعلق مختلف آپشنز پر غور کیا گیا، جو عراق کے شمال میں کئی کلیدی شہروں پر قابض ہوچکے ہیں اور ملک کے دارالحکومت کو فتح کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔

صدر نے کہا کہ امریکہ نے اِسی ہفتے مشرق وسطیٰ کے خطے میں اپنے فوجی اثاثے بڑھا دیے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ عراق میں شدت پسندوں کے خلاف کسی ’فوری‘ یا ’مختصر‘ نوعیت کی فوجی کارروائی کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے، جس سے قبل، امریکی کانگریس سے ضروری مشاورت کی جائے گی اور اس سے اجازت لی جائے گی۔

صدر نے واضح کیا کہ دولت اسلامیہ عراق والشام اور لیواں کے شدت پسند دھڑوں کی طرف سے محفوظ ٹھاکنے حاصل کرلینا یا اسلحہ جمع کرنا، نہ تو عراق، نہی اُس کے ہمسایوں، مثلاً اردن، یا پھر یورپ یا امریکہ کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔

ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ شام میں مطلق العنان، صدر اسد کی طرف سے پیدا کردہ حالات کے باعث، کئی طرح کے جہادیوں نے وہاں کا رخ کیا ہے، یہاں تک کہ یورپ سے بھی جہادی شام جا رہے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے۔ عراق سے متعلق، صدر نے کہا کہ اس کے انسانی، اسٹریٹجک اور انسداد دہشت گردی سے متعلق نوعیت کے مفادات وابستہ ہیں، جنھیں محفوظ بنایا جائے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ عراق پر نگرانی میں اضافہ کیا گیا ہے، جس کام کے لیے امریکہ نے خطے میں اپنے فوجی اثاثے بڑھا دیے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں، صدر نے کہا کہ عراق سے امریکی فوجی انخلا سے قبل امریکہ نے واضح کیا تھا کہ تربیت اور مشاورت کے سلسلے میں کچھ تعداد میں اپنی فوجیں تعینات رکھنے کا خواہاں ہے، جس کے لیے ’لازمی استثنیٰ کے اختیارات‘ مانگے گئے تھے، جنھیں مالکی حکومت نے دینے سے انکار کیا تھا۔