پاکستان کی وزارتِ خزانہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وزارت کی درخواست پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے کے لیے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اس ہفتے ہونے والا اجلاس فی الحال ملتوی کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کے اجلاس کے دوران پاکستان کو قرض کی منظوری سے پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط ملنے کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔ تاہم اس سے قبل حکومت کو پیشگی اقدامات اٹھانے کو کہا گیا تھا جس پر فی الحال عمل درآمد ہونا باقی ہے۔
آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا یہ اجلاس اب جنوری کے آخر یا فروری میں ہونے کی توقع ہے جس میں پاکستان کی جانب سے پیشگی اقدامات سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے گی۔
ان پیشگی اقدامات میں بعض اشیا پر 350 ارب روپے سے زائد مالیت کی ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی بینک کو مزید خود مختار بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
آئی ایم ایف کی مذکورہ شرائط سے متعلق بلز اب تک قومی اسمبلی سے منظور نہیں ہو سکے ہیں۔ حکومت کو نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومتی بینچز کے بعض ارکان کی جانب سے بھی ان بلوں کی منظوری میں مخالفت کا سامنا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی دستیابی پارلیمان سے ان بِلز کی منظوری سے مشروط ہے۔ تاہم حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ان بِلز پر موجود اختلافات کے باعث یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
بِلز قائمہ کمیٹی سے منظور
تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پیر کو اکثریتی ووٹوں سے نئے ٹیکسوں سے متعلق بل کو پاس کر دیا ہے جس کے بعد اس پر اب قومی اسمبلی میں بحث ہوگی۔
SEE ALSO: مالیاتی ضمنی بل قومی اسمبلی میں پیش، حکومت کن کن اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم کر رہی ہے؟قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے پیر کو ہونے والے اجلاس میں اسٹیٹ بینک ترمیمی ِبل پر بھی غور کیا گیا۔ اس اجلاس میں وزیرِ خزانہ شوکت ترین اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر بھی موجود تھے۔
وزیرِ خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کو دنیا بھر میں خود مختاری حاصل ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ماضی کی حکومتوں نے اسٹیٹ بینک کا غلط استعمال کیا اور اسے پیسہ چھاپنے کی مشین بنائے رکھا۔
ان کے بقول حکومت اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان کا خود انتخاب کر کے انہیں تعینات کرے گی اور مرکزی بینک کے کام کو پارلیمنٹ دیکھ سکے گی۔ جس سے پارلیمان کا کردار مزید بڑھے گا۔
انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ اسٹیٹ بینک کے پاس کوئی یک طرفہ اختیارات ہوں گے ان کے بقول وزیرِ خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک مشترکہ طور پر اہم فیصلے کریں گے۔
اسٹیٹ بینک کو مزید اختیارات دینے پر اعتراضات
دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں حکومتی مؤقف سے اختلاف کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس بل سے ملک کی مالیاتی خود مختاری متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسبلی احسن اقبال کہتے ہیں بغیر سوچے سمجھے ملکی مالیاتی خودمختاری کی سودے بازی کی جارہی ہے اور اسٹیٹ بینک کو ایسے اختیارات دیے جا رہے ہیں جس کے بعد وہ حکومت ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو بھی جواب دہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اسٹیٹ بینک سے قرض لینے پر پابندی عائد کر کے اب حکومت پرائیویٹ بینکوں سے قرض حاصل کرنے پر مجبور ہو گی جس کے تحت یہ بینکس کارٹیل بنائیں گے، اپنی شرائط پر حکومت کو قرضہ دیں گے اور منافع خوری کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملکی آئین کے مطابق سالانہ بجٹ یا کوئی بھی مالیاتی بل پارلیمان کے نچلے ایوان یعنی قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور وہیں سے منظوری کے بعد یہ بل قانون کی شکل اختیار کرلے گا جب کہ اس بل پر ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی جانب سے تجاویز 14 روز کے اندر اندر قومی اسمبلی کو ارسال کی جاسکتی ہیں۔ تاہم اسٹیٹ بینک سے متعلق ترمیمی بل سینیٹ سے بھی منظور کرانا ضروری ہو گا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کئی معاشی ماہرین بھی مجوزہ مالیاتی بل پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں اور اسے ملکی معاشی خودمختاری کے لیے نقصان دہ قرار دیتے آئے ہیں۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ بل کی منظوری سے ایک جانب حکومت کو قرض جاری کرنے سے بینکوں کو بھاری منافع ملے گا، جس سے حکومت کو مہنگے قرض ملا کریں گے اور دوسری جانب مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب جنم لے گا۔
لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں کام کرنے والے زیادہ تر بینک قومی بینک ہیں اور غیر ملکی بینکوں کی شرح بہت کم ہے۔ اس لیے حکومت کو قرض لینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔
سیاسی اتفاقِ رائے نہ ہونا تاخیر کی بڑی وجہ
بیشتر معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ حکومت کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط کے حصول میں اصل رکاوٹ سیاسی اتفاقِ رائے کا نہ ہونا ہے۔
معاشی میدان میں تحقیق سے منسلک ادارے 'شجر کیپیٹل' کے سی ای او ریحان عتیق کے مطابق پارلیمان سے بلز کی منظوری آئی ایم ایف کی اولین شرط تھی جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔ آئی ایم ایف کو اس بات کے خدشات ہیں کہ اگر کوئی ایسا مالیاتی نظم و نسق قائم کر بھی دیا جاتا ہے جس کے تحت حکومت مرکزی بینک سے قرضے نہ لے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ کچھ عرصے میں یہی سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔
ان کے بقول اسی وجہ سے اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے طور پر منظور کرانے کی شرط رکھی گئی ہے اور ملک میں یہ مسئلہ ہی دیکھا گیا ہے کہ پالیسیاں عارضی بنیادوں پر بنتی اور بدلتی رہی ہیں جس سے معاشی استحکام پیدا نہیں ہو پایا۔