بپر جائے: 'کراچی کو طوفان سے خطرہ نہیں لیکن اس کے اثرات ضرور ہوں گے'

"ہمیں ہر شخص نئی بات بتاتا ہے، سوشل میڈیا پر تو جیسے افواہوں کا بازار گر م ہے، کوئی بتا رہا ہے کہ لہریں ڈی ایچ اے کے اندر تک آ جائیں گی جب کہ کوئی کہتا ہے کہ اس نے تو کیٹی بندر جانا ہے یہاں اس کا اثر صرف ہواؤں اور بارشوں کی صورت میں ہوگا۔میرے بچے لوگوں سے کچھ سن کر آتے ہیں جب کہ مجھے واٹس ایپ پر ڈرانے والے وائس نوٹس آ رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔"

یہ کہنا ہے کہ کراچی میں سی ویو فلیٹس کی رہائشی نوشابہ احمد کا جو اس بات سے پریشان ہیں کہ انہیں فلیٹ خالی کرکے کہیں جانا چاہیے یا وہ یہیں محفوظ ہیں۔

بحیرہ عرب میں موجود طاقت ور طوفان 'بپرجائے' کے پیشِ نظر سمندر کنارے آباد گھروں کو خالی کرانے کا کہا گیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں کراچی میں ساحل کنارے نئی تعمیرات دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑھ چکی ہیں۔ اب ان گھروں میں مقیم بہت سے خاندانوں کے لیے طوفان کی آمد پریشان کن ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے طالب علم محمد منیب کہتے ہیں کہ ہمیشہ طوفان کا سنتے ہیں لیکن آتا نہیں ہے اور کراچی محفوظ رہتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں تھوڑی سی بارش ہوجائے تو نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔اگر طوفان کی وجہ سے یہاں ہوائیں چل گئیں یا بارش ہوگئی تو املاک کو نقصان پہنچے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک شہر میں بہت سے بل بورڈز نہیں اتارے گئے ہیں جو خطرے کی بات ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سمندری طوفان بنتے کیسے ہیں؟

ایک اور شہری عفت احمد کے مطابق انہیں طوفان سے خوف محسوس ہورہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا "یہ قدرتی آفت ہی ہے بس دعا ہے کہ ٹل جائے یہ جہاں سے بھی گزرے گا تباہی مچائے گا۔ انسانی جانوں کا ضیاع کوئی عام بات نہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "میں نے تو موسم کی خبریں سنتے ہوئے گھر میں ضروری سامان رکھ لیا ہے نہ جانے کب تک اس کی وجہ سے باہر نہ نکلنا ہو۔ میرے خیال سے صوبائی حکومت کو کراچی میں بھی چھٹی دینی چاہیے تاکہ لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں دفاتر نہ جائیں۔"

وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ساتھ میڈیا بریفنگ میں کہا کہ طوفان سے کراچی کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اس کے اثرات سے شہر ضرور متاثر ہوگا۔اربن فلڈنگ ہو سکتی ہے اس لیے احتیاط کریں۔

ادھر محکمۂ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ حالیہ الرٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندری طوفان بپر جائے اس وقت کراچی سے 340 کلو میٹر دور جب کہ جنوب مغربی سمت میں کیٹی بندر سے 275 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ طوفان کے مرکز اور اطراف میں ہواؤں کی شدت 160 سے 180 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے جب کہ لہروں کی اونچائی 30 فٹ ہے۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق بپر جائے طوفان 15 جون کی دوپہر یا شام تک کی کیٹی بندر اور بھارتی علاقے گجرات کے درمیان سے گزر کر ٹکرائے گا جس کے نتیجے میں تیز آندھی اور طوفانی بارشوں کا خدشہ ہے اور اس وقت ہواؤں کی رفتار 120 سے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوسکتی ہے۔اس طوفان کے دوران 13 سے 17 جون تک سندھ کی ساحلی پٹی سے ملحقہ علاقوں جاتی، ٹھٹھہ، بدین، سجاول، تھر پارکر اور عمر کوٹ میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارشوں کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ 14 سے 16 جون کے درمیان کراچی، حیدر آباد، میرپورخاص، ٹنڈومحمد خان، ٹنڈوالہیار، سانگھڑ، شہید بینظیر آباد میں تیزہوائیں، جھکڑ چلنے اور موسلا دھار بارشوں کا امکان ہے۔

SEE ALSO: بپر جائے؛ 'طوفان غریب دیکھتا ہے نہ محنت، سب بہا لے جاتا ہے'

طوفان کے پیشِ نظر سمندر میں طغیانی معمول سے کہیں زیادہ ہے اور ساحلی پٹی سے ملحق بعض نشیبی علاقوں میں لہریں اچھل کر باہر آ ئی ہیں۔ کراچی کے چشمہ گوٹھ، ریڑھی گوٹھ ، ابراہیم حیدری میں بھی کچھ مقامات پر پانی آنے کی اطلاعات ہیں۔

حکام نے موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ماہی گیروں کو 17 جون تک کھلے سمندر میں جانے سے منع کیا ہے۔

واضح رہے کہ جون جولائی میں سمندر تیز ہونے کے سبب ویسے ہی شکار پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ البتہ ماہی گیر سمندر کے قریبی حصے میں جاکر شکار کرتے ہیں لیکن موجودہ صورتِ حال میں ماہی گیروں کو وہاں جانے سے بھی روکا گیا ہے۔

سندھ حکومت نے طوفان سے قبل ہی شاہ بندر، کیٹی بندر، بدین زیرو پوائنٹ پر آباد ماہی گیروں کی بستیوں کو مکمل طور پر خالی کروالیا ہے۔ ان بستیوں میں اس وقت خالی مکانات اور ساحل پر کھڑی خالی کشتیوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ہر سو ویرانی ہے اور صرف تیز ہوا کا شور اور بارش کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔کئی سو دیہات خالی ہیں اور جہاں لوگ پھنسے ہوئے ہیں انہیں پولیس، ر ینجرز اور نیوی کی مدد سے نکالنے کی کوششیں جاری ہیں ۔

صوبائی حکومت کے مطابق اب تک 60ہزار سے زائد افراد کو ساحلی علاقوں سے نکال لیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے باربار لوگوں کو احتیاط کرنے کا کہا جارہا ہے جب کہ سینیٹر شیری رحمان نے بھی لوگوں سے گزارش کی ہے کہ وہ پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔

ان کے بقول طوفان کے دوران کسی کو ریسکیو نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے اس وقت لوگ اپنے گھر اور علاقے چھوڑ کر محفوظ مقامات پر چلے جائیں۔