اسرائیل میں گیشر بنوت یعقوب نامی آثار قدیمہ کے مقام پر پائی جانے والی کارپ نما مچھلی کی باقیات کے تفصیلی تجزئے سےظاہر ہوا ہے کہ ابتدائی انسان تقریباً سات لاکھ 80 ہزار سال پہلے مچھلی پکا کر کھایا کرتا تھا۔
سائنس دان ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے اس بارے میں تحقیق کر رہے ہیں کہ انسان نے کھانا پکانے کے لیے آگ کا استعمال کب شروع کیا ۔ انہیں ایک لاکھ 70 ہزار سال پہلے کی تاریخوں میں کھانا پکانے کے لیے آگ کے استعمال کا ثبوت ملتا ہے لیکن حال ہی میں جریدے نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولیوشن میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کھانا پکانے کی اب تک کی معلوم تاریخ کو 6 لاکھ سال سے زیادہ پیچھے لے جاتی ہے۔
یہ تحقیق یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی ، تل ابیب یونیورسٹی اوربار ایلان یونیورسٹی کےسائنس دانوں کی زیر قیادت، اسٹین ہارڈ میوزیم ، نیچرل ہسٹری اور ینم اکیڈیمک کالج ،اسرائیل اوشینوگرافک اینڈ لِمنولوجیکل ریسرچ ، نیچرل ہسٹری میوزیم لندن ، اور جوہانس گٹنبرگ یونیورسٹی کے تعاون سے انجام پائی ۔
اے ایف پی کے مطابق یہ ریسرچ تل ابیب یونیورسٹی کے اسٹین ہارڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری کی ماہر آثار قدیمہ اور اس ریسرچ کی مرکزی مصنفہ اریت زوہار کی 16 سال کی محنت کا نتیجہ ہے ۔
اس ریسرچ کی پہلی کڑی شمالی اسرائیل میں گیشر بنوت یعقوف نامی مقام سے ملنے والے قدیم مچھلیوں کے فوسلز کا وہ خزانہ تھا جو مچھلیوں کے ہزاروں دانتوں پر مشتمل تھا اور جس میں مچھلیوں کی ہڈیاں تقریباً ناپید تھیں ۔
دریائے اردن کے کنارے واقع اس مقام پر کسی زمانے میں ایک جھیل ہوا کرتی تھی۔ اریت زوہار نے اس جگہ سے قدیم مچھلیوں کی ہزاروں باقیات کی فہرست تیار کی ۔
محققین کو ان باقیات کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ کارپ نما مچھلیوں کے دانت تھےاور زیادہ تر دانت خاص طور پر کارپ کی صرف دو بڑی انواع سے تعلق رکھتے تھے جن سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ انہیں ان کے رسیلے گوشت کی وجہ سے منتخب کیا گیا تھا ۔
لیکن اس مرحلے پر ایک اور اہم بات یہ سامنے آئی کہ اس مقام پر ان قدیم کارپ نما مچھلیوں کی ہڈیاں تقریباً بالکل موجود نہیں تھیں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کچی مچھلیوں کے نہیں بلکہ پکی ہوئی مچھلیوں کے دانت تھے ۔ کیوں کہ ماہرین کے مطابق مچھلی کی ہڈیاں 500 ڈگری سیلسئس یا 930 فارن ہائیٹ سے کم درجہ حرارت پر نرم اور بکھر جاتی ہیں لیکن ان کے دانت باقی رہتے ہیں ۔
اگلی کڑی اسی علاقے سے جلی ہوئی چقماق اور دوسرے کچھ ایسے شواہد کا ملنا تھا جو وہاں آگ جلانے کی جگہ کی موجودگی کا پتہ دیتے تھے ۔
یہ اس ریسرچ کی وہ اہم ترین کڑی تھی جس نے محققین کی توجہ قدیم زمانے کے ممکنہ باورچیوں اور باورچی خانوں کا پتہ چلانے پر مرکوز کی ۔
تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ واقعی پکی ہوئی مچھلیوں کے دانت تھے دانتوں کی چمک دار سطح کا مطالعہ کیا گیا ۔
محققین نے لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں ایکس رے پاؤڈر ڈفریکشن نامی تکنیک کا استعمال کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس طرح دانتوں کو گرم کرنے سے کرسٹل کی ساخت میں تبدیلی آتی ہے جو تام چینی بناتے ہیں۔
محققین نے کارپ نسل سے تعلق رکھنے والی مچھلیوں کے دانتوں پر توجہ مرکوز کی ۔ یہ دانت اس مقام پر آثار قدیمہ کے مختلف حصوں میں بڑی مقدار میں پائے گئے۔ کرسٹل کی ساخت کا مطالعہ کر کے جو دانتوں کی بیرونی چمک دار سطح کو تشکیل دیتا ہے (جن کا سائز گرمی کی وجہ سے بڑھتا ہے)، محققین یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ اس مقام سے ملحق قدیم حولا جھیل میں پکڑی جانے والی مچھلیوں کو ایک خاص درجہ حرارت پر پکایا گیا تھا ۔
انہیں معلوم ہوا کہ مچھلی کے دانت 200 سے 500 ڈگری سیلسئس درجہ حرارت پر پکے ہوئے تھے جو اچھی طرح سے پکی ہوئی مچھلی کے لیے حرارت کی صحیح حد ہے ۔
ڈاکٹر زوہار اور عبرانی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف آرکیالوجی کے ماہر آثار قدیمہ اوراس ریسرچ ٹیم کے ایک رکن ڈاکٹر پریوسٹ کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبل از تاریخ کے انسانوں کی زندگی میں خوراک اور معاشی استحکام کے لیے مچھلی بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی ۔
ان کا کہنا ہے کہ گیشر بینوٹ یعقوف سے ملنے والی مچھلیوں کی باقیات پر ان کی ریسرچ نے انہیں پہلی بار قدیم حولا{Hula} جھیل کی قدیم مچھلیوں کی آبادی کے بارے میں مزید ریسرچ اور یہ معلوم کرنے کا موقع فراہم کیا کہ اس جھیل میں مچھلیوں کی ایسی اقسام ہوا کرتی تھیں جو وقت کے ساتھ معدوم ہو گئیں ۔ ان میں کارپ نما مچھلیاں شامل تھیں جن کی لمبائی دو میٹر تک تھی۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس مقام پر مچھلیوں کی باقیات کا اتنی بڑی تعداد میں ملنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ابتدائی دور کےوہ انسان ، جنہوں نے خوراک پکانے کے خصوصی طریقے ایجاد کیے تھے ،اکثر ان مچھلیوں کو کھایا کرتے تھے ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ نئی دریافتیں قبل از تاریخ کے انسان کی خوراک کے لیے نہ صرف تازہ پانی کی قدرتی جگہوں اور ان میں موجود مچھلیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ یہ بھی پتہ دیتی ہیں کہ اس زمانے کا انسان کھانا پکانے کے لیے آگ جلانے کی صلاحیت رکھتا تھا اور وہ مچھلی کو پکا کر کھانے کے فائدوں کی بھی سمجھ بوجھ رکھتا تھا ۔
ان دریافتوں کی کڑی پتھر کےاوزاروں سے شکار کرنے والے قدیم دور کے انسانوں کے گروہ ایشولین سے جاملتی ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ قدیم حولا وادی میں رہا کرتے تھے اور وہ اپنے ماحول اور وہاں موجود مختلف وسائل سے بخوبی واقف تھے اور وہ مختلف پودوں اور جانوروں کی اقسام کی زندگی کے مرحلوں کو بھی خوب اچھی طرح سے جانتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانا پکانے کے لیے درکار مہارت کا حصول ا ایک اہم ارتقائی پیش رفت کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ اس نے خوراک کے دستیاب وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لیے ایک اضافی ذریعہ فراہم کیا تھا اور ممکن ہے کہ قبل از تاریخ کے انسان صرف مچھلیاں ہی نہیں بلکہ مختلف قسم کے جانوروں اور پودوں کو بھی پکا کر کھاتے ہوں گے ۔
’سائنس ڈیلی‘ کے مطابق ڈاکٹر زوہار اور ریسرچ ٹیم کے رکن پروفیسر ہرشکووٹز کہتے ہیں کہ کچے کھانے سے پکے ہوئے کھانے تک کے سفر نے انسانی جسم کی نشو و نما اور رویے پر ممکنہ طور پر ڈرامائی اثرات مرتب کیے۔ پکا ہوا کھانا کھانےسسے اسے ہضم کرنے کے لیے کم جسمانی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے جسم کے دوسرے نظاموں کی نشوونماہو سکتی ہے ۔ اس سے انسانی جبڑے اورکھوپڑی کی ساخت میں بھی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی نے امکانی طور پر انسانوں کو کچے کھانے کی تلاش او رہضم کرنے کی روزانہ کی تگ و دو سے آزاد کردیا اور انہیں وہ فارغ وقت فراہم کیا جس میں نئے سماجی اور طرز عمل کے نظام تیار ہو سکتے تھے۔
جریدے نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولیوشن میں شائع اس رپورٹ کے مطابق کچھ سائنس دان مچھلی کھانے کو انسانی علم کے ارتقا میں ایک سنگ میل سمجھتے ہیں ، جس نے انسانی دماغ کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ۔
ان کا دعویٰٰ ہے کہ مچھلی کھانے کے عمل نے ہمیں انسان بنایا۔ آج بھی، یہ بڑے پیمانے پر جانا جاتا ہے کہ مچھلی کے گوشت میں موجود اومیگا 3 فیٹی ایسڈ، زنک، آیوڈین اور بہت سے اجزا دماغ کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
SEE ALSO: زندگی کی ابتدا جنوبی افریقہ سے ہوئیتحقیقی ٹیم کا خیال ہے کہ میٹھے پانی کے مقامات نے، جن میں سے کچھ اب خشک ریگستان بن چکے ہیں ، ابتدائی انسانوں کے افریقہ سے لیونٹ اور اس سے آگے کی طرف ہجرت کے راستے کا تعین کیا۔
ان قدرتی آماجگاہوں نے نہ صرف پینے کا پانی مہیا کیا اور جانوروں کو علاقے کی طرف راغب کیا بلکہ بلکہ گہرے پانی میں مچھلیاں پکڑنا نسبتاً آسان اور محفوظ اور بہت زیادہ غذائیت کے حصول کا ذریعہ بھی تھا۔
ریسرچ ٹیم کا موقف ہے کہ میٹھے پانی کی قدرتی آماجگاہوں سے مچھلیاں پکڑنا قبل از تاریخ کے انسانوں کے لیے افریقہ سے باہر جانے کا پہلا قدم تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی انسان نے تقریباً 2 ملین سال پہلے مچھلی کھانی شروع کی تھی لیکن مچھلی پکانا -- جیسا کہ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے ،پتھر کے اوزاروں کے استعمال کے دور کے Acheulian انسانوں کی غذا میں ایک حقیقی انقلاب کا عکاس تھا۔
اور یہ ابتدائی انسانوں کی تاریخ کی ترتیب نو کی کوشش میں انسان، ماحول، آب و ہوا اور ہجرت کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی ایک اہم کڑی ہے ۔