اس سال طب کے شعبے کا نوبیل انعام سوئیڈن کے ایک سائنس دان کو ان کی اس دریافت پر دیا گیا ہے کہ انسان سے مشابہت رکھنے والے لاکھوں سال پرانے نینڈرتھل اور ڈینیسوا کے ڈی این اے کا کچھ حصہ دور جدید کے انسان میں پایا جاتا ہے اور وہ ممکنہ طور پر آج کے انسان کے اجداد میں شامل ہے۔
اس سے قبل ڈارون نے اپنا نظریہٴ ارتقا پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انسان بندر کی ترقی یافتہ شکل ہے اور اسے انسان بننے کی منزل تک پہنچنے کے لیے ارتقا کے ایک طویل دور سے گزرنا پڑا۔ تاہم ان کے اس دعویٰ کی حیثیت ایک نظریے کی ہی رہی اور اس سلسلے میں کوئی ٹھوس سائنسی شواہد پیش نہیں کیے جا سکے۔
نینڈرتھل اورڈینیسوا بن مانس سے مشابہت رکھنے والے جاندار تھے، جن کا ارتقا تقریباً ساڑھے تین سے چار لاکھ سال قبل ہوا اور لگ بھگ 40 ہزار سال قبل یہ نسل ختم ہو گئی تھی۔
نینڈرتھل زیادہ تر یوریشیا کے علاقے میں پائے جاتے تھے۔ سائبیریا سے ایک نینڈرتھل کی اندازاً 45 ہزار سال پرانی باقیات کی ایک ہڈی کے ڈی این اے سے پتا چلا کہ اس کے کچھ حصے انسان کے ڈی این اے سے ملتے جلتے ہیں۔
سائنس دانوں کے ایک گروپ کا خیال ہے کہ ابتدائی انسان، جسے وہ ہومو سیپین کا نام دیتے ہیں، اور نینڈرتھل کا ظہور لگ بھگ ایک ہی دور میں ہوا۔ ڈی این اے کے کچھ حصوں میں مشابہت کی وجہ سائنس دانوں کے نزدیک ان کے درمیان باہمی جنسی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نینڈرتھل کے جسم کا دفاعی نظام کمزور تھا اور وہ بدلتے ہوئے موسموں اور وباؤں کا مقابلہ نہ کر سکا، جس کے باعث اس کی نسل ہی دنیا سے ختم ہو گئی جب کہ دوسری جانب ہومو سیپین کی نسل اپنے جسم کے مضبوط دفاعی نظام اور بہتر سوجھ بوجھ کی بنا پر پروان چڑھتی رہی۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دور میں سائنس دانوں کو یہ پتا چلا تھا کہ عالمی وبا میں مبتلا ہونے والے ان افراد میں زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوئیں جن کے ڈی این اے کا کچھ حصہ نینڈرتھل جیساتھا، جس سے نینڈرتھل کے فنا ہونے کے نظریے کو تقویت ملتی ہے۔
ماہرین کے اندازوں کے مطابق برِ اعظم افریقہ میں تقریباً چار فی صد لوگوں میں نینڈرتھل کے ڈی این اے کا کچھ حصہ پایا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نینڈرتھل، ڈینیسوا اور ہومیو سیپین کا ظہور سات سے چار لاکھ سال پہلے مصر کے ان علاقوں میں ہوا جہاں دریائے نیل بہتا تھا۔ پھر یہ رفتہ رفتہ دنیا بھر میں پھیلتے چلے گئے۔ ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں منتقلی کے اسباب ابھی تک غیر واضح ہیں۔
نینڈرتھل اور جدید انسان کی بحث کافی پرانی ہے۔ اسے نیا موڑ طب کا نوبیل انعام جیتنے والے سائنس دان سوانٹے پیبو نے دیا، انہوں نے نیندرتھل کے ڈی این اے سے اس کے جنیوم کا بلو پرنٹ یعنی حیاتی نقشہ تیار بنایا۔
جنیوم زندگی کی ایک مکمل اکائی ہے، جو بہت سی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جنیوم کولوح حیات بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس پر ماضی، حال اور مستقبل سب کچھ درج ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک انسان کا جنیوم یہ نشاندہی کرتا ہے کہ اس کی نسل کسں سے جڑی ہے، اس کے اندر اپنے اجداد کی کونسی سے خوبیاں اور خامیاں منتقل ہوئی ہیں۔ اس کے جسم کی ساخت، اور حتی کہ آنکھوں کی رنگت کیا ہو گی۔ عادات کیا ہوں گی۔ اسے کونسی بیماریاں لگ سکتی ہیں۔ اور اندازاً وہ کتنا عرصہ جی سکتا ہے۔
سوانٹے پیبو نے نینڈرتھل کی ہزاروں سال پرانی باقیات میں سے ایک انگلی کی ہڈی کے ڈی این اے سے اس کے جنیوم کا بلوپرنٹ تیار کیا اور اس کے جنیوم اور آج کے انسان کے جنیوم میں موجود ان مماثلتوں کو اجاگر کیا جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ نینڈرتھل جدید انسان کے آباؤ اجداد میں شامل تھا اور اس کے جنیوم کی کئی چیزیں انسان کو منتقل ہوئی ہیں۔
نوبیل انعام دینے والی تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ سوانٹے پیبو نے ہمارے ارتقا کی تاریخ کے مطالعے کے لیے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے جس پر انہیں اس انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ سوئیڈن کے 67 سالہ سائنس دان سوانٹے پیبو نے ڈی این اے کے قدیم نمونوں سے انتہائی مہارت کے ساتھ جنیوم کا نقشہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
سوانٹے پیبو جرمنی کے لیپزگ میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے ارتقائی بشریات اور جاپان کے اوکیناوا انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں۔
طب کے شعبے کا یہ انعام رواں ہفتے دیے جانے والے پانچ انعامات میں سے پہلا نوبیل انعام ہے، جس کا اختتام جمعے کے روز امن کے نوبیل انعام کے ساتھ ہو گا۔جب کہ معاشیات کے انعام کا اعلان 10 اکتوبر کو کیا جائے گا۔
یہ انعامات سوئیڈن کی ایک اہم شخصیت اور موجد الفریڈ نوبیل نے قائم کیے تھے ، جنہیں ان کی وصیت کے مطابق ہر سال تقسیم کیا جاتا ہے۔ تاہم نوبیل انعامات کی ابتدائی فہرست میں معاشیات کا انعام شامل نہیں ہے۔
نوبیل انعامات کی تقسیم کی تقریب ہر سال دسمبر میں اسٹاک ہومز میں ہوتی ہے۔
انعام کی مالیت سوئیڈن کے ایک کروڑ کرونا ہیں جو امریکی ڈالر میں نو لاکھ ڈالر سے کچھ زیادہ رقم بنتی ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)