سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ڈینئل پرل کیس میں گرفتار ملزمان کو تقریباً 19 سال بعد پہلی بار بیرکس سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ اب اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وقت گزار سکیں گے۔
محکمۂ داخلہ سندھ کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق احمد عمر شیخ، فہد نسیم، سید سلمان ثاقب، اور شیخ محمد عادل کو ہفتے کی شب جیل بیرک سے باہر جیل کے احاطے میں ہی موجود کمروں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق یہ تمام افراد اب اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات بھی کر سکیں گے۔ نوٹی فکیشن کے مطابق ان افراد کی سیکیورٹی پولیس اور رینجرز کی مشترکہ ذمہ داری ہو گی۔ آئی جی جیل خانہ جات ان افراد کو کمروں کے لیے آرائشی سامان فراہم کریں گے تاہم ملزمان کو انٹرنیٹ سمیت بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے کسی قسم کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی۔
ملزمان کو صرف ان کے قریبی خاندان کے افراد سے ملاقات کی اجازت ہوگی جس کے لیے صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے کا وقت متعین کیا گیا ہے۔ ان افراد کے لیے ایک ڈاکٹر کو بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اہلِ خانہ کی جانب سے کھانے پینے کی اشیا اور ادویات ڈاکٹر کے معائنے کے بعد حراست میں رکھے گئے افراد کو فراہم کی جائیں گی۔
اسی طرح حراست میں موجود افراد کے وہ اہلِ خانہ جو کراچی سے باہر رہتے ہیں ان کے قیام کے لیے سرکاری گیسٹ ہاوس قصر ناز میں کمرے بک کیے گئے ہیں جب کہ ان کو سینٹرل جیل تک ٹرانسپورٹ کی فراہمی بھی صوبائی حکومت کے ذمے ہو گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ماہ ڈینئل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کی رہائی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے تمام ملزمان کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملزمان کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل رد ہونے کے بعد ایک جانب صوبائی حکومت نے نظرِ ثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ وہیں وفاقی حکومت نے بھی ان ملزمان کی عدم رہائی کے لیے استدعا کی ہے۔
درخواستوں میں ان ملزمان کی رہائی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ اگر ان ملزمان کو رہا کیا گیا تو وہ دوبارہ غائب نہ ہو جائیں۔ اس لیے انہیں فی الوقت رہا نہ کیا جائے۔
عدالت نے اس صورتِ حال میں ملزمان کو جیل کے احاطے ہی میں رہائشی ماحول فراہم کرنے کی مشروط اجازت دی تھی۔
اس بارے میں وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ ملزمان ملک دشمن سرگرمیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ احمد عمر شیخ عام ملزم نہیں بلکہ دہشت گردوں کا ماسٹر مائنڈ ہے اور وہ پاکستان کے عوام کے لیے خطرہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم گزشتہ 20 سال میں دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئی، سانحہ آرمی پبلک اسکول اور سانحہ مچھ جیسے واقعات کی دنیا میں کم ہی نظیر ملتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیس کا پس منظر کیا ہے؟
امریکہ کے اخبار 'دی وال اسٹریٹ جرنل'سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں جنوری 2002 میں اغوا کیا گیا تھا جن کی لاش مئی 2002 میں برآمد ہوئی تھی۔
اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ جب کہ استغاثہ کی جانب سے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
SEE ALSO: ڈینئل پرل کا قتل تاحال معمہ، 19 سال پرانے مقدمے میں کب کیا ہوا؟تاہم اس کیس میں اپیل پر فیصلہ آنے میں 18 برس کا عرصہ لگ گیا کیوں کہ ملزمان کے وکلا نہ ہونے کی وجہ سے اپیلوں کی سماعت تقریباً 10 برس تک بغیر کارروائی کے ملتوی ہوتی رہی۔
سندھ ہائی کورٹ نے چار فروری 2020 کو 18 سال بعد اپیل پر فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے مقدمے میں گرفتار تین ملزمان کو بری جب کہ مرکزی ملزم کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
ملزم احمد عمر سعید شیخ 18 برس سے جیل میں ہی ہیں۔