رسائی کے لنکس

ڈینئل پرل کا قتل تاحال معمہ، 19 سال پرانے مقدمے میں کب کیا ہوا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ ہائی کورٹ نے 2009 میں ایک سماعت کے دوران کراچی میں قتل ہونے والے امریکی صحافی ڈینئل پرل کے مقدمے کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت اور دیگر ملزمان کو دی گئی عمر قید کے خلاف اپیلوں کو التوا میں ڈال دیا تو امریکہ کو کسی حد تک اطمینان ہو گیا کہ پاکستانی عدالتیں ملزمان کو بری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔

اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے واشنگٹن کو بھیجے گئے ایک خط میں کہا کہ کیس کے حوالے سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ عدالتوں کا عمر شیخ کی سزائیں ختم کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔

وکی لیکس پرموجود 14 اکتوبر 2009 کو جاری کردہ کیبل میں امریکی سفیر یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ ماتحت عدالتوں میں حکومت اور ملزمان کے وکلا بھی اس کیس کے دوبارہ کھولے جانے کے حق میں نہیں۔ کیوں کہ فریقین سمجھتے ہیں کہ کیس کے کھولے جانے سے کیس سے جڑی پیچیدگیاں سامنے آئیں گی۔

ڈینئل پرل امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جنرل' کے جنوبی ایشیا ریجن کے بیورو چیف تھے جو کراچی میں 23 جنوری 2002 کو اغوا ہوئے تھے۔

اغوا کاروں کی جانب سے امریکی حکومت کو پیش کیے گئے مطالبات نہ مانے جانے کے بعد کراچی میں امریکی قونصلیٹ کو ایک ویڈیو ملی جس میں ڈینئل پرل کو بے دردی سے گلا کاٹ کر قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

حیدر آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 15 جولائی 2002 کو برطانوی شہریت رکھنے والے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو ڈینئل پرل کے قتل اور اغوا کے الزام میں سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ تین دیگر ملزمان فہد سلیم، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔

ڈینئل پرل کیس: 'تحقیقات میں خامیوں کا فائدہ ملزمان کو ملا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:47 0:00

البتہ سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر سندھ ہائی کورٹ نے دو اپریل 2020 کو اپنے فیصلے میں ڈینئل پرل کے قتل میں اغوا برائے تاوان اور قتل کے الزامات ثابت نہ ہونے کی بنیاد پر مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت ختم کر کے انہیں اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا جب کہ دیگر ملزمان کی عمر قید کی سزائیں ختم کر دی تھیں۔

احمد عمر شیخ 18 سال سے زائد عرصے سے قید ہونے کی وجہ سے اس فیصلے کے بعد رہائی پانے کے اہل تھے۔

سندھ ہائی کورٹ کے عمرشیخ کی بریت کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت اور ڈینئل پرل کے خاندان کی جانب سے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ اپیلیں دائرکی گئی تھیں جس میں استدعا کی گئی تھی کہ احمد عمر شیخ کی سزائے موت جب کہ اس مقدمے کے دیگر ملزمان کی عمر قید کی سزائیں بحال کی جائیں۔

28 جنوری کو سپریم کورٹ نے بھی سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ سمیت دیگر کی رہائی کا حکم دیا۔

کیس میں کمزوریوں سے ملزمان کو فائدہ پہنچا؟

وائس آف امریکہ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس کیس سے وابستہ وکلا، سابق اور موجودہ پولیس افسران اور صحافیوں سے تفصیلی بات چیت سے یہ بات سامنے آئی کہ بین الاقوامی اہمیت کے حامل اس کیس میں استغاثہ اور پولیس کی جانب سے کافی کمزوریاں دکھائی گئیں۔

ان خامیوں کے سبب احمد عمر شیخ اور دیگر تین ملزمان بری ہو گئے۔ اس کیس میں یہی وہ پیچیدگیاں تھیں جس کا اشارہ امریکی سفیر پیٹرسن نے اپنے کیبل میں گیارہ سال قبل کیا گیا تھا۔

ڈینئل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ (فائل فوٹو)
ڈینئل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ (فائل فوٹو)

ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج داری مقدمات میں عدالتی حوالہ جات کافی اہمیت کے حامل تھے اور سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت اس ہائی پروفائل کیس میں استغاثہ کی طرف سے 10 جب کہ عمر شیخ کے وکلا کی جانب سے 26 حوالہ جات دیے گئے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ استغاثہ کی کمزوریاں یا حکمت عملی ٹرائل کورٹ میں کام کر جاتی ہیں مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ کمزوریاں پکڑی جاتی ہیں جو کیس کا رخ مکمل طور پر تبدیل کر دیتی ہے۔ یہی حال ڈینئل پرل قتل کیس میں بھی ہوا۔

عمرشیخ کی گرفتاری سے متعلق متضاد دعوے

یہ کیس روزِ اول ہی سے اس وقت کمزور ہونا شروع ہوا جب کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں سماعت کے دوران پولیس نے چالان میں دعویٰ کیا کہ عمرشیخ کو 13 فروری 2002 کو کراچی ایئر پورٹ سے گرفتار کیا گیا۔

اس کے برعکس عمرشیخ نے اپنے اعترافی بیان میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود پانچ فروری 2002 کو لاہور میں گرفتاری پیش کی۔ اسے 12 فروری کو پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لایا گیا۔ اس وقت تک اغوا ہونے والے ڈینئل پرل کے قتل کیے جانے کا کسی کو علم نہیں تھا۔

رپورٹس کے مطابق اس وقت کے ہوم سیکریٹری بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اعجاز شاہ (آج کل وفاقی وزیر ہیں) نے عمرشیخ کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ بھی اطلاعات تھیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عمرشیخ کے خاندان کو ہراساں کیا جس کے بعد ہی عمر شیخ گرفتاری دینے پر مجبور ہوئے۔

عمر شیخ کے اس مؤقف کے دفاع میں ان کے والد سعید احمد شیخ اور ماموں ڈسٹرکٹ سیشن جج شیخ عبدالرؤف عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے۔ عدالت میں لاہور میں گرفتاری کے حوالے سے اخباری خبروں کے تراشے بھی پیش کیے گئے۔

پولیس کے ایک دوسرے گواہ محمد اقبال نے بھی عمرشیخ کے بیان کی تائید کی۔پولیس کی اس غلط بیانی پر ہائی کورٹ میں استغاثہ خاموش رہا۔

ڈینئل پرل کس اسٹوری پر کام کر رہے تھے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:56 0:00

قتل کی ویڈیو اور آلۂ قتل کی عدم برآمدگی

عدالت میں استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئی ڈینئل پرل کا بے دردی سے گلا کاٹنے کی ویڈیو پورے کیس میں واحد ثبوت سمجھا جا رہا تھا۔ یہ ویڈیو پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بجائے امریکہ کے وفاقی تفتیشی ادارے (ایف بی آئی) ایجنٹ جان ملیگن نے 21 فروری 2020 کو ایک ذریعے سے حاصل کی تھی۔

ویڈیو میں ڈینئل پرل قتل ہوتے تو دکھایا گیا ہے مگر کوئی بھی دوسرا شخص نظر نہیں آیا جب کہ جائے وقوعہ، وقت اور مارنے والوں کا بھی تعین نہیں ہو سکا۔

پولیس بھی ایسا ثبوت عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہی کہ عمر شیخ اس ویڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران موقع پر موجود تھے یا نہیں۔

قتل کو 18 سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی تفتیشی افسران آلۂ قتل برآمد کر کے عدالت میں پیش نہیں کر سکے۔

دو ملزمان فہد نسیم اور سید سلمان ثاقب کے اعترافی بیانات پر استغاثہ یا پولیس نے ملک کے سب سے اہم ہائی پروفائل کیس کی بنیاد رکھی۔

اعترافی بیانات میں کہا گیا تھا کہ عمر شیخ کی ہدایت پر انہوں نے ڈینئل پرل کے اغوا کے بعد ان کی اہلیہ کو امریکی صحافی کے اغوا کی تصاویر کے ہمراہ اطلاع دی۔ بعدازاں 30 جنوری 2002 کو آخری ای میل کے ذریعے ڈینئل پرل کی رہائی کو مطالبات سے مشروط کیا گیا تھا۔

اغوا کاروں کے مبینہ مطالبات کیا تھے؟

ان مطالبات میں افغانستان میں امریکی حملوں کے بعد امریکی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو قانونی معاونت دینے، کیوبا کی گوانتاناموبے جیل میں قید پاکستانیوں کی رہائی، پاکستان میں تعینات افغان طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی رہائی اور ایف سولہ طیاروں کی حوالگی یا پاکستان کو رقم کی واپسی شامل تھے۔

مگر یہ اعترافی بیانات ریکارڈ کرنے والی جوڈیشل مجسٹریٹ اِرم جہانگیر نے ان بیانات کے رضاکارانہ نہ ہونے کے بارے میں ان بیانات پر ایک واضح نوٹ لکھ دیا تھا۔ ماہرین کے مطابق ایسے بیانات رضا کارانہ طور پر بغیر کسی دباؤ کے ریکارڈ کروائے جائیں تو یہ ناقابلِ تردید ہوتے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے اپنے مشاہدے میں یہ لکھا کہ ہائی پروفائل کیس ہونے کی وجہ سے اس وقت پولیس پر امریکی صحافی کی باحفاظت بازیابی اور انہیں غائب کرنے والے افراد کی گرفتاری کے حوالے سے کافی دباؤ تھا۔

احمد عمر شیخ کے والد سعید شیخ عدالتی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ سے باہر آ رہے ہیں۔
احمد عمر شیخ کے والد سعید شیخ عدالتی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ سے باہر آ رہے ہیں۔

ایسی صورت حال میں مختلف حربے استعمال کر کے ایسے اعترافی بیانات ریکارڈ کرانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

عدالت نے مختلف حربوں کے ذریعے ملزمان سے اعترافی بیانات لینے کے حوالے سے برطانیہ میں ستر کی دہائی کے دو اہم کیسوں 'گلڈ فورڈ فور' اور 'برمنگھم سکس' کی مثالیں دیں۔

لیپ ٹاپ کی برآمدگی و ردوبدل

عدالت میں امریکی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے کمپیوٹر فرانزک کے ماہر اور گواہ رونالڈ جوزف کے بیان کے مطابق انہیں پاکستان آنے سے دو روز پہلے یعنی 29 جنوری 2002 کو بتایا گیا کہ اس نے پاکستان میں اس لیپ ٹاپ کا جائزہ لینا ہے جس کے ذریعے فہد نسیم اورسلمان ثاقب نے ڈینئل پرل کے اغوا کی اطلاع دی تھی۔

مگر پولیس اور استغاثہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ مواد 11 اور 12 فروری کی رات کو ملزمان سے برآمد کیا گیا ہے۔

اس بنیاد پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یا تو لیپ ٹاپ کی برآمدگی کا وقت غلط لکھا گیا ہے یا دوسری صورت میں ایف بی آئی کے ماہر کا بیان غلط ہے یا کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا میں ردوبدل کر کے اسے امریکی ماہر کے حوالے کیا گیا۔

یوں لیپ ٹاپ کے بارے میں تیار کی گئی امریکی ماہر کی فرانزک رپورٹ پر منحصر ایک اہم ثبوت بھی ضائع ہو گیا۔

پولیس کی جانب سے ڈینئل پرل کے تاوان کے لیے ہاتھ سے لکھی دو تحریروں پر اپنی رائے دینے کے لیے غیر متعلقہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ پر انحصار کر کے کیس کو مزید کمزور کر دیا گیا۔

یہ وہ تحریریں تھیں جو مبینہ طور پر عمر شیخ نے فہد نسیم اور سلمان ثاقب کو دی تھیں اور جن کی روشنی میں انہوں نے دنیا کو ڈینئل پرل کے اغوا اور بعد میں رہائی کے بدلے تاوان کے مطالبات سے آگاہ کیا تھا۔

اسی طرح استغاثہ عدالت میں یہ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ عمر شیخ کے ہمراہ فہد نسیم اور سلمان ثاقب بھی راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں 11 جنوری 2002 کو موجود تھے جہاں انہوں نے مبینہ طور پر اغوا برائے تاوان اور قتل کی منصوبہ بندی کی۔

عطا الرحمٰن اور دیگر اہم کردار

ڈینئل پرل کیس کے معاملات سے باخبر ایک سینئر پولیس افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے متعدد افراد جو اغوا و قتل کی منصوبہ بندی میں شریک اور لاش کو دفنانے وغیرہ میں ملوث تھے، اُنہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر انہیں اس لیے عدالت میں پیش نہیں کیا گیا کیوں کہ وہ عمرشیخ اور تین افراد کے جاری کیس کو کمزور کر سکتے تھے۔

احمد عمر شیخ کے وکیل نے 27 جنوری 2021 میں سپریم کورٹ کو ایک سماعت کے دوران بتایا کہ 2019 میں احمد عمر شیخ نے سندھ ہائی کورٹ کو لکھے گئے ایک خط میں ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل میں عطاالرحمٰن نامی شخص کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ جو اس وقت پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے اور اسے عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی سے تعلق رکھنے والے عطاالرحمٰن المعروف نعیم بخاری کی گرفتاری پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' نے 2016 میں ظاہر کی تھی۔

گرفتاری کے دوران فوج کی جانب سے دعوٰی کیا گیا تھا کہ ملزم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ احمد عمر شیخ کو دیگر 100 ساتھیوں سمیت جیل سے چھڑانے کے لیے حیدرآباد جیل پرحملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ عطاالرحمٰن کا ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل میں اہم کردار ہے اور 2002 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے عطاالرحمٰن کو کراچی کے علاقے ناظم آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ملزم نے پانچ سال جیل کی سزا بھی کاٹی۔

پرل کیس میں ملوث ملزم کے ایک رشتہ دار کو پولیس نے حراست میں لے رکھا ہے۔ (فائل فوٹو)
پرل کیس میں ملوث ملزم کے ایک رشتہ دار کو پولیس نے حراست میں لے رکھا ہے۔ (فائل فوٹو)

البتہ ڈینئل پرل قتل کے مقدمے کی ایف آئی آر یا چارج شیٹ میں عطا الرحمٰن کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ "ان افراد میں حرکت المجاہدین کے کارکن فضل کریم اور الرشید ٹرسٹ نامی جہادی خیراتی تنظیم سے وابستہ کاروباری شخصیت سعود میمن بھی شامل تھے۔"

خیال رہے کہ ڈینئل پرل کی لاش کراچی کے مضافاتی علاقے احسن آباد میں الرشید ٹرسٹ کی ملکیت ایک خالی پلاٹ سے ملی تھی۔

گزشتہ کئی سالوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس کی جانب سے بھی مقابلوں میں ڈینئل پرل کیس سے لشکرِ جھنگوی اور دیگر تنظیموں سے وابستہ مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کیے جانے کے دعوے کیے گئے مگر ان کی کیس سے وابستگی کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

خالد شیخ محمد کو 2003 میں راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا تھا۔
خالد شیخ محمد کو 2003 میں راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا تھا۔

القاعدہ رہنما خالد شیخ محمد کا کردار

امریکی محکمۂ دفاع (پینٹاگون) کی جانب سے 2007 میں جاری کردہ تفصیلات کے مطابق خالد شیخ محمد نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈینئل پرل کا چھری سے قتل اس نے کیا ہے مگر اس کا نام ڈینئل پرل قتل کیس کی سرکاری فائلوں میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔

خالد شیخ محمد پاکستان میں پیدا ہونے والے کویتی شہری ہیں جن پرسانحہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ انہیں 2003 میں راولپنڈی سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا جہاں اسے گوانتاناموبے کی جیل میں رکھا گیا تھا۔

ڈینئل پرل کس اسٹوری پر کام کر رہے تھے؟

ڈینئل پرل نے 1999 میں 'وال اسٹریٹ جرنل' کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف کا عہدہ سنبھالا اور ممبئی میں رہنا شروع کیا۔

نائن الیون کے بعد افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی رپورٹنگ کے سلسلے میں وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکستان آتے جاتے رہے۔

البتہ پاکستان میں ’شُو بمبار‘ کے لقب سے مشہور رچرڈ کولوِن ریڈ نامی برطانوی شہری کے حوالے سے ایک خبر کی تلاش میں وہ اپنی جان گنوا بیٹھے۔

اس اسٹوری کے حوالے سے ڈینئل پرل نے 23 جنوری 2002 کو ’مسلمز آف امریکہ‘ نامی تنظیم کے سربراہ شیخ مبارک علی شاہ گیلانی کا انٹرویو کرنا تھا۔

انیس سال کے لگ بھگ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ڈینئل پرل کے قتل کا معمہ حل نہیں ہو سکا۔ اصل قاتل احمد عمر شیخ ہے یا کوئی اور؟ اور کیا قاتلوں کو سزا مل سکے گی یا نہیں؟ ان سوالوں کا جواب اب تک نہیں مل سکا۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG