برطانیہ میں مقیم انسانی حقوق کے ایک گروپ کی طرف سے پیر کو ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2021 میں طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعدوہاں، سیاسی طور پر فعال خواتین کو نشانہ بنانے والی آن لائن بدسلوکی اور نفرت پر مبنی بیان بازیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ایک نان پرافٹ مرکزکے تحت چلائے جانے والے اوپن سورس پروجیکٹ"افغان شہادتی ٹیم"(Afghan Witness)" کی تحقیق کے مطابق، جون سے دسمبر 2021 کے دوران کی صورتحال کے مقابلے میں 2022میں اسی مدت کے دوران بدسلوکی پر مبنی پوسٹس میں 217 فیصد اضافہ ہوا، جو تین گنا زیادہ ہے۔
میانمار میں اسی طرح کی تحقیق سے حاصل ہونے والے تجربے کی بنیاد پرافغان پراجیکٹ ٹیم نےسوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر عوامی طور پر دستیاب معلومات کا تجزیہ کیا۔اس شہادتی ٹیم نے ان معلومات کے مطابق طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے آن لائن بدسلوکی کی نوعیت کی چھان بین کے لیے چھ افغان خواتین کے ساتھ تفصیلی انٹرویوز کیے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تفتیش کاروں کی ٹیم نے دو مقامی افغان زبانوں یعنی دری اور پشتو میں لکھی گئی 78,000 پوسٹس کو اکٹھا کیا اور ان کا تجزیہ کیا ۔ ان پوسٹس کا ہدف ’’سیاسی طور پر سرگرم افغان خواتین کے تقریباً 100 اکاؤنٹس‘‘ تھے۔
رپورٹ کے مصنفین نے کہا کہ انٹرویوز سے پتہ چلا کہ آن لائن توہین آمیز پوسٹس میں ہونے والے اس اضافے کے نتیجے میں خواتین کو نشانہ بنانے میں مدد ملی۔ انٹرویو لینے والوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ فحش مواد کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد اور موت کی دھمکیوں کے پیغامات بھی موصول ہوئے ۔
ایک خاتون نے افغان شہادتی ٹیم کو بتایا کہ ’’میرے خیال میں سوشل میڈیا پرجس نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جو حقیقی زندگی میں محسوس کی جاتی ہے۔‘‘
طالبان حکومت کے ترجمان اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے فوری طور پر دستیاب نہیں تھے۔
رپورٹ میں بدسلوکی والی پوسٹوں میں چار عمومی موضوعات کی نشاندہی کی گئی۔ ان میں آزاد جنسی میل ملاپ کے الزامات، سیاسی طور پر سرگرم خواتین پرثقافتی اور مذہبی اصولوں کی خلاف ورزی سے متعلق رائے ، خواتین پر مغرب کی ایجنٹ ہونے اور بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹے دعوؤں کے الزامات شامل ہیں۔
افغان شہادتی ٹیم کا کہنا ہے کہ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ آن لائن بدسلوکی میں خواتین کے لیے سخت الفاظ شامل تھے ۔ 2022 میں60 فیصد سے زیادہ پوسٹس میں خواتین کے لیے ’’طوائف‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔
پراجیکٹ کی سرکردہ تفتیش کار فرانسسکا جینٹل نے کہا کہ ’’افغانستان پر طالبان کے اقتدار کے بعد سےسوشل میڈیا سماجی اور سیاسی اظہار کی جگہ کی بجائے بدسلوکی اور دباؤکے فورم میں تبدیل ہو گیا ہےاور اس کا ہدف خاص طور پر خواتین ہیں۔ ‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان نے خواتین کو عوامی زندگی اور کام کے زیادہ تر شعبوں سے روک دیا ہے اور 2021 میں امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نافذ کیے گئے سخت اقدامات کے ایک حصے کے طور پر چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا ہے۔
جینٹل نے مزید کہا کہ ’’ خواتین اور ان کے حقوق کے خلاف طالبان کی مخاصمت آن لائن بدسلوکی کرنے والوں کے لیے یہ پیغام دیتی ہے کہ کوئی بھی عورت جو اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہے وہ ایک جائز اور منصفانہ قدم ہے۔‘‘
ایک خاتون صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر شہادتی ٹیم کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو غیر فعال کر دیا ہے اور اب وہ کومنٹس نہیں پڑھتی ہیں کیونکہ آن لائن ذرائع تک پہنچنے کی کوشش کرتے وقت اس نوعیت کے کومنٹس ان کے کام کو متاثر کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ آن لائن بدسلوکی کرنے والوں میں بیشتر مرد تھے جن کا تعلق مختلف سیاسی وابستگیوں، نسلی گروہوں اور پس منظر سے تھا۔‘‘
SEE ALSO: افغان مہاجرین کی بے دخلی: 'ہر گزرتے دن کے ساتھ کابل اور اسلام آباد میں دُوریاں بڑھیں گی'پاکستان سے 4 لاکھ سے زیاد ہ افغان افراد کی وطن واپسی
افغانستان سے متعلق ایک اور خبر کے مطابق پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے بعد چار لاکھ سے زیادہ افغان باشندے اپنے آبائی ملک واپس چلے گئے ہیں ۔
افغانستان میں طالبان کی زیرقیادت حکومت کے چیف ترجمان نے بھی اس تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اکثریت اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے طورخم اور اسپن بولدک کی سرحدی گزرگاہوں کو استعمال کر رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 1.7 ملین افغان باشندے پاکستان میں مقیم تھے جب حکام نے ملک گیر کریک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مناسب دستاویزات کے بغیر افراد کو 31 اکتوبر تک پاکستان سے جانا ہوگا ورنہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔
اس تازہ ترین پیشرفت سے قبل ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے انتباہ میں کہا گیا تھا کہ سرد موسم کے آغاز کے باوجود تقریباً 1.3 ملین افغان باشندوں کے پاکستان سے اپنے آبائی ملک واپس جانے کی توقع ہے۔
اس طرح کے اخراج پر بین الاقوامی اور ملکی انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ادھر افغانستان میں طالبان کی زیر قیادت انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ واپس آنے والوں کو پناہ اور خوراک فراہم کر رہی ہے۔
اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔