پاک افغان سرحد کے قریب لنڈی کوتل کے چھوٹے سے قصبے میں آج کل دن بھر ٹریفک بلاک رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں خاندان یہاں سے کچھ دور ہی طورخم پر واقع پاک افغان بارڈر کراس کر کے افغانستان پہنچ چکے ہیں۔
ان میں افغان صوبہ لغمان سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ سپوگمئی بھی ہیں۔ وہ اپنی والدہ اور دو بھائیوں کے ساتھ افغانستان واپس جا رہی ہیں۔
"میرے والد کابل میں ہیں۔ میں تو پڑھنے کے لیے یہاں آئی تھی، چوں کہ والد اکیلے نہیں بھیجنا چاہتے تھے اس لیے ماں اور بھائیوں سمیت بھیجا تاکہ بھائی بھی اچھی تعلیم حاصل کر سکیں۔ اب واپس جاؤں گی گھر میں چھپ کر بیٹھ جاؤں گی یا پھر میری شادی کرا دی جائے گی۔ آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔"
یہ کہنا تھا سپوگمئی کا جو وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران شکوہ کر رہی تھیں۔
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر تک کی مہلت دی تھی۔ یہ فیصلہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستان کے سول و فوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔
پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں، لہذٰا غیر قانونی تارکینِ وطن کو یکم نومبر کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔
طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی جب کہ افغان شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا تھا۔
واپس جانے والے افغان مہاجرین کے مطابق پاکستان میں وہ خوش گوار یادیں چھوڑے جا رہے ہیں، لیکن ان حسین یادوں کا اختتام تلخی پر ہوا اور اب سارے اپنے ساتھ تلخ یادیں لے کر سرحد پار کر رہے ہیں۔
پاک، افغان تعلقات کا مستقبل غیر یقینی
ماہرین کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین کی بے دخلی کا معاملہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر بھی اثرانداز ہو گا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں پولیس کی جانب سے افغان شہریوں کے ساتھ نارووا سلوک کی شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں جس پر طالبان عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ شیر عباس ستنکزئی نے کابل میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نے برداشت کیا اور حوصلے سے کام لیا اور کوئی شدید ردِعمل نہیں دیا۔"
اُن کا کہنا تھا کہ "پاکستان کے سیکیورٹی حکام سے ہماری اُمید اور توقع ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم ان کے عمل کے جواب میں کوئی ردِعمل دیں۔"
پشتون شہریوں کی شکایات
ماہرین کے مطابق اس معاملے پر جہاں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں تلخیاں زیرِ بحث ہیں تو وہیں پاکستان کے اپنے پشتون شہری بھی شدید دباؤ میں ہیں۔
پشتون قوم پرستوں جماعتوں کا یہ الزام ہے کہ افغان مہاجرین سمجھ کر ملک کے مختلف حصوں میں آباد پشتون آبادی کو بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔ تاہم حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی کہتے ہیں کہ "آصف زرداری کا تعلق سندھ، نوازشریف اور میاں شہبازشریف کا تعلق پنجاب سے ہے ہمیں ان سے شکایت ہے کہ ہمارے لوگوں کو آخر کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔"
کوئٹہ پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ "ہر صوبے میں داڑھی اور پگڑی جرم بن گئی ہے جس کی پگڑی اور داڑھی ہو اس کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ پشتون وہ قوم ہیں جنہوں نے اس ملک کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔"
خیال رہے کہ پاکستان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے واضح کر چکی ہے کہ صرف اُن تارکینِ وطن کو بے دخل کیا جا رہا ہے جو بغیر دستاویزات یا ویزے کے پاکستان میں مقیم تھے۔
گرفتاری اور ہراساں کیے جانے کی شکایات پر جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات چیت کرتے ہوئے نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ قانونی طور پر پاکستان میں رہنے والے اور پناہ گزین افغان باشندے ہمارے بھائی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ڈی پورٹ صرف غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بدری کے دوران کسی نے بھی کسی کو ہراساں کیا تو اُس کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔
صحافی اور کالم نویس نصرت جاوید نے حال ہی میں اس موضوع پر اپنا کالم بھی تحریر کیا ہے۔ وہ اس سارے مسئلے کو پاکستان کی اندرونی صورتِ حال کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "مجھے فکر نہیں کہ کابل کیا سوچتا ہے، کیوں کہ کابل میں پاکستان کے حوالے سے ملاجلا رجحان رہا ہے۔"
اُن کے بقول "اگر سابق افغان صدر سردار داؤد کا دور دیکھیں تو دشمنی بھی رہی ہے۔ اس لیے پاک افغان تعلقات سے زیادہ میں اس بات پر فکر مند ہوں کہ ہمارے اپنے پشتون پاکستانی بھائیوں کے ساتھ افغان مہاجرین کے انخلا کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ قابل تشویش ہے۔"
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ پشتون پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں، لہذٰا بلوچستان یا خیبرپختونخوا میں جو لسانی فالٹ لائنز ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ وہ مسئلے کا حصہ بن جائیں۔"
اُن کے بقول ہم پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کی باتیں کر رہے ہیں، اگر یہ مسئلہ بڑھا تو پھر کیا ہو گا۔ ہمیں تو ظاہر ہے کہ اپنے گھر کی فکر کرنی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین کے انخلا کے معاملے پر اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے اندر بھی بعض حلقے افغان مہاجرین کی اس طرح سے واپسی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبردار اور افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نگراں حکومت کے اس فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ "پاکستان نے افغان مہاجرین کے بارے میں سخت پالیسی اپنائی ہے، جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان باشندوں کو مہاجر اور پاکستانیوں کو انصار قرار دے کر اپنایا گیا، لیکن اب اُنہیں زبردستی نکال کر نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔"
تجزیہ کار ندیم رضا کہتے ہیں کہ ہر ریاست کے لیے اپنی ترجیحات اہم ہوتی ہیں۔ جب دہشت گردی میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد مل جائیں اس کے بعد اس قسم کے اقدامات کے لیے ریاست پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 40 برس تک افغان مہاجرین کی میزبانی کی اور ہمیشہ اُن کے لیے دروازے کھلے رکھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد پوری دنیا نے افغان باشندوں کو تنہا چھوڑ دیا، لیکن اس وقت بھی پاکستان نے اپنے دروازے کھلے رکھے۔ لہذٰا اب اگر پاکستان نے اپنے مفاد میں کوئی فیصلہ کیا ہے تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ ہے۔
ندیم رضا کہتے ہیں کہ پاکستانی حکام نے بارہا افغان طالبان سے افغان سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا کہا، لیکن افغان طالبان سنی ان سنی کرتے رہے۔ ایسے میں پاکستان کے پاس یہی آپشن تھا کہ وہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجتا، کیوں کہ وہاں اب جنگ بھی ختم ہو چکی ہے۔
دریائے کنڑ کا پانی روکنے کے مطالبے
زیادہ تر حلقوں میں اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ اس وقت جب افغانستان شدید سردی کی لپیٹ میں ہے ہزاروں کی تعداد میں افغان خاندانوں کو افغانستان بھیجنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ان کے اس طرح جانے سے طالبان حکومت پر پاکستان مخالف رویہ اختیار کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔
افغانستان کے نیوز چینل 'طلوع نیوز' میں چار نومبر کو اسلام آباد اور کابل کے بگڑتے تعلقات سے متعلق ایک پروگرام میں تجزیہ کار ادریس محمد زازئی نے طالبان حکومت کو تجویز دی کہ وہ افغان صوبہ کنڑ کے پانی کا رخ موڑ دیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ "میں جنگ کے حق میں نہیں ہوں۔ لیکن امارت اسلامی کو تاریخ رقم کرنی چاہیے افغان اپنے پرچم اپنے سینوں سے لگا کر رکھتے ہیں ان کا پرچم سروں پر لگائیں گے۔"
دریائے کنڑ افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے کے طور پر وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا ہے۔ دریائے کنڑ افغان صوبہ کنڑ سے نکل کر پاکستان کے ضلع چترال سے پاکستانی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ دریائے کنڑ کے بہاؤ کو نہ روکا جائے۔ اگر افغانستان کی جانب سے اس بہاؤ کو ڈیم سے روکنے یا اس کا رُخ موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ پاکستان کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔
مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے معاملات اس وقت مزید گھمبیر ہو گئے جب نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ غیر مصدقہ دستاویزات کے ساتھ ساتھ پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر) رکھنے والوں کو بھی واپس بھیجا جائے گا۔
پاکستانی میڈیا سے بات کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ان غیر قانونی افراد کو واپس بھیجا جائے گا جن کے پاس کوئی سفری دستاویز نہیں، نہ یہ ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کب اور کیسے آئے تھے۔
ان کے مطابق دوسرے وہ افراد ہیں جنھوں نے ریکارڈ کو تبدیل کیا اور وہاں سے اپنے آپ کو رجسٹرڈ کر لیا۔ اس کے بعد باقی دیگر کیٹیگریز ہیں جن کے تحت آخر میں غیر قانونی طور پر رہنے والے تمام افراد کو پاکستان سے واپس جانا ہو گا۔
وزیر داخلہ کے مطابق ان لوگوں کو بھی واپس بھیج دیا جائے گا جن کے پاس رجسٹریشن پروف (پی او آر) کارڈز ہیں کیوں کہ اب ان کے اپنے آبائی ملک کے حالات بہتر ہیں۔
لیکن جامعہ پشاور شعبہ عالمی تعلقات کے سابق چیئرمین اور افغان مہاجرین کی حالیہ پیش رفت کو انتہائی قریب سے دیکھنے والے پروفیسر اعجازاحمد حکومت کے اس فیصلے کو نامناسب قرار دے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ "میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر لحاظ سے اس فیصلے میں سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا۔ امن وامان، معیشت، عالمی امیج، افغان طالبان کے ساتھ تعلقات عرض یہ کہ خود پاکستانی معاشرے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔"
اُن کے بقول کئی بار ایسے مواقع آئے کہ جس پر افغان طالبان نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے آنکھیں بند کر دی تھیں۔ لیکن اب جب یہ ہزاروں خاندان وہاں جائیں گے تو ہر افغان باشندے کے دل میں پاکستان کے لیے نفرت ہو گی۔
اُن کے بقول ہر گزرتے دن کے ساتھ کابل اور اسلام آباد کے درمیان دوریاں بڑھتی جائیں گی۔ کچھ عرصے سے افغان طالبان جو مختصر سی مذمت کرتے تھے اب افغان طالبان حکومت کے قائدین سخت لہجہ اختیار کرنے لگے ہیں۔"
'افغان جرنلسٹس ان ایگزائل' نامی تنظیم کے ترجمان حشمت ویجدانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کیوں کہ 40 برس سے یہ لوگ یہاں مقیم تھے اور اب اچانک ایک ماہ کے اندر انہیں بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ خود پاکستان کے لیے بھی مشکل کا باعث بن رہا ہے۔ یہ عمل بہتر طریقے سے بھی ہو سکتا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "جو افغان شہری یہاں سے جا رہے ہیں وہ اپنی نفرتوں بھری کہانیاں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں جس سے پاکستان کے لیے افغانستان میں مزید نفرتیں جنم لیں گی۔"
حشمت ویجدانی کہتے ہیں کہ وہ افغان طالبان رہنما جو پاکستان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے تھے، اب ان کے لہجے میں بھی سختی آنے لگی ہے۔
اُن کے بقول ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں حکومتیں اس مسئلے پر مذاکرات کریں۔
فورم