|
پشاور _ حکومتِ پاکستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف 'عزمِ استحکام' کے نام سے اعلان کردہ آپریشن کے خدوخال تاحال واضح نہیں ہیں مگر خیبر پختونخوا کی سیاسی و سماجی تنظمیوں اور قبائلی رہنماؤں نے کسی بھی قسم کے فوجی آپریشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لیے ہفتے کو 'عزمِ استحکام' کا اعلان کیا تھا۔ اس آپریشن کے اعلان ہوتے ہی اس کے خلاف روایتی قبائلی جرگوں، جلسے جلوسوں اور احتجاجی دھرنوں کے اعلانات بھی ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے زیرِ اہتمام ہفتے کو ہی جنوبی وزیرستان سے ملحقہ قصبے رزمک میں ریلی کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں خیبر پختونخوا کے کسی بھی علاقے میں فوجی کارروائی کی نہ صرف مخالفت کی گئی بلکہ مزاحمت کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے علاوہ مذہبی سیاسی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی سمیت قوم پرست عوامی نیشنل پارٹی نے مجوزہ فوجی آپریشن کی شدید مخالفت کی ہے۔
مخالفت کیوں؟
خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر سید اختر علی شاہ کہتے ہیں ملک میں امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو اقدامات اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ مگر ان اقدامات سے قبل حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپریشن 'عزمِ استحکام' کی مخالفت کی وجہ ماضی میں ہونے والی فوجی کارروائیوں میں عام لوگوں کو پہنچنے والی مشکلات سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'آپریشن ضربِ عضب' سمیت کئی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنا پڑی اور اب مزید کوئی بھی گھر بار چھوڑ کر یا نقل مکانی کے لیے تیار نہیں۔
ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے کہا کہ حکومت کو 'عزمِ استحکام' کی وضاحت کرنی چاہیے۔
SEE ALSO: بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن پر غور نہیں ہو رہا؛ 'عزمِ استحکام' پر وزیرِ اعظم آفس کی وضاحتوزیرِ اعظم آفس نے پیر کو ایک اعلامیے میں وضاحت کی کہ گزشتہ مسلح آپریشنز ملک کے نو گو علاقوں میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کے لیے تھے۔ تاہم اس وقت ملک میں ایسے کوئی علاقے نہیں۔ البتہ 'عزمِ استحکام' کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جینس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی منگل کو پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ آپریشن 'عزمِ استحکام' پر ایوان میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا اور اپوزیشن جماعتوں کو بحث کا وقت بھی دیا جائے گا جب کہ کابینہ میں منگل کو اس پر بحث کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 'آپریشن عزمِ استحکام' پر پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی تشویش کو ضرور دور کیا جائے گا۔
وزیرِ دفاع نے 'عزمِ استحکام' کی نوعیت نہیں بتائی۔ البتہ انہوں نے بتایا کہ یہ آپریشن خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو گا۔
وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ اور استحکام سب کی اولین ترجیح ہے لیکن وفاقی حکومت کو آپریشن 'عزمِ استحکام' کے طریقہ کار، مدت اور دیگر متعلقہ امور کی وضاحت کرنی چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس اہم ترین معاملے پر سینیٹ سمیت قومی و صوبائی اسمبلیوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جائے۔
SEE ALSO: 'آپریشن عزم استحکام'؛ کیا پاکستان میں ایک اور فوجی آپریشن ناگزیر ہے؟بیرسٹر سیف کے مطابق وزیرِ اعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف ایک ادارے کا مسئلہ نہیں۔ اسی طرح دہشت گردی بھی صرف ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی سے خیبر تا کراچی پورا ملک متاثر ہے۔
سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ حکومتی اداروں کی جانب سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے باعث اب عوام کا آپریشن یا فوجی کارروائیوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔
ان کے بقول آپریشن ضرب عضب سمیت ہر فوجی کارروائی کے بعد حکومت نے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کے دعوے کیے مگر درحقیقت ہر آپریشن کے بعد عسکریت پسندوں کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی نئی فوجی کارروائی کے شروع کرنے سے قبل حکومت کو نہ صرف ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا بلکہ یہ بھی بتانا ہوگا کہ کن بنیادوں خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا اضافہ ہوا ہے۔
'آپریشن کے اعلان نے پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کر دیا'
مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ 'عزمِ استحکام' کے اعلان نے حزبِ اختلاف اور خیبر پختونخوا کی حکمراں جماعت پی ٹی آئی کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کے بغیر وفاقی حکومت یا فوج کے لیے 'عزمِ استحکام' آپریشن شروع کرنا یا اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔
پی ٹی آئی برملا اس مجوزہ فوجی کارروائی کی مخالفت کر رہی ہے جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان نے آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کوئی نیا آپریشن کرنے سے قبل وضاحت کرے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟
SEE ALSO: دوحہ اجلاس میں شرکت کی دعوت عالمی اہمیت میں اضافےکا ثبوت ہے: طالبانایمل ولی خان نے کہا کہ ان کی جماعت کسی آپریشن کی حمایت نہیں کرے گی اور جب تک تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اس وقت تک 'عزمِ استحکام' آپریشن پر کوئی اعتماد نہیں۔
اپوزیشن جماعت جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر فوج، ایجنسیوں، جنرلز کی حکمتِ عملی کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
پشاور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ مختصر بات چیت میں انہوں نے سوال کیا کہ فوجیوں کی حکمتِ عملی سے دہشت گردی ختم ہوئی یا اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ریاستی رٹ ختم ہو گئی ہے اور عوام مسلح تنظیموں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ ہمارے ادارے واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں یا قبائلی علاقوں کے معدنی ذخائر پر قبضہ کر رہے ہیں؟
گیارہ ستمبر 2001 میں امریکہ میں دہشت گردی کی کارروائی کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے بعد سے پاکستان میں 14 مختلف فوجی آپریشنز ہو چکے ہیں۔
سال 22-2021 میں آپریشن اینڈیورینگ فریڈم کا آغاز کیا گیا جس کے بعد آپریشن المیزان (2002-2006)، آپریشن شیردل (2007)، آپریشن راہِ حق (2007)، آپریشن زلزلہ (2008)، آپریشن صراطِ مستقیم (2008)، آپریشن ضربِ کلیم (2008)، آپریشن راہِ راست (2009)، آپریشن خیبر پاس (2009)، آپریشن راہِ نجات (2009-2010)، آپریشن ضربِ آہن 2014، راجن پور کے کچے میں چھوٹو گینگ کے خلاف)، آپریشن ضربِ عضب (2014-2016)، آپریشن خیبر ( 2014-2017، خیبر ایجنسی میں 4 مراحل میں ہوا۔ خیبر1، خیبر2، خیبر3، خیبر 4) اور آپریشن ردالفساد 2017 میں شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔