|
افغانستان کے طالبان اس ماہ کے آخر میں قطر میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے لیے اقوام متحدہ کی دعوت کو عالمی سطح پر اپنی انتظامیہ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے ثبوت کے طور پردیکھ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا افغانستان کے بارے میں طالبان اور بین الاقوامی ایلچیوں کے درمیان دو روزہ اجلاس 30 جون کو خلیجی ریاست کے دارالحکومت دوحہ میں ہو رہا ہے جب کہ خواتین نمائندوں کی عدم شمولیت پر انسانی حقوق کے گروپس کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔
طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پیر کو اپنے دفتر سے جاری ایک ویڈیو بیان میں اعلان کیا کہ "دوحہ اجلاس آنے والے دنوں میں منعقد ہوگا، اور امارت اسلامیہ افغانستان کو اس میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی گئی ہے۔"
متقی نے افغان دارالحکومت میں اپنی وزارت کے عملے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ"ہم نے پڑوسی اور علاقائی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے ہیں اور ہم مغربی اور امریکی حکومتوں کے ساتھ بھی مثبت اور خوشگوار تعلقات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔"
یہ ،’’دوحہ پروسس‘‘ نامی اجلاس کا تیسرا سیشن ہو گا، جس میں اساس پسند ڈی فیکٹو افغان حکمران پہلی بار شرکت پر رضامند ہوئے ہیں ۔
طالبان تقریباً تین سال قبل اقتدار میں واپس آئے تھے اور کابل میں صرف مردوں پر مشتمل اپنی حکومت قائم کی، جسے امارت اسلامیہ کا نام دیا گیا، جسے عالمی برادری نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک سال قبل دوحہ عمل کا آغاز کیا تھا تاکہ طالبان کے ساتھ انگیجمنٹ کے لیے ایک متفقہ بین الاقوامی نقطہ نظر قائم کیا جا سکے۔
طالبان نے افغان بچیوں کی چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم اور خواتین کی بہت سی سرکاری اور نجی ملازمتوں پر جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
گوتریس نے مئی 2023 میں پہلی دوحہ کانفرنس میں ڈی فیکٹو افغان حکمرانوں کو مدعو نہیں کیا تھا، اور طالبان نے افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ فروری میں ہونے والی دوسری دوحہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے حکام نے طالبان کے ساتھ شاز و نادر ہونے والے مذاکرات کا دفاع کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ اجلاس میں تقریباً 25 ملکوں کے خصوصی ایلچی انسانی حقوق کے دوسرے خدشات کے علاوہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر پابندیوں کے مسئلے کو بھی بھر پور طریقے سے اٹھائیں گے۔
جمعے کے روز، افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن، یا یوناما کی سربراہ، روزا اوتن بائیفا نے عالمی برادری کی جانب سے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کرنے کی اہمیت پر زور دیا، اور کہا کہ اس سے افغان خواتین کے لیے مستقبل کے مذاکرات میں شرکت کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کے گروپس نے اقوام متحدہ پر سخت تنقید کی ہےکہ اس نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف "جرائم" کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے طالبان کو دوحہ مذاکرات میں مدعو کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ترانہ حسن نے اس اجلاس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، "خواتین کو شامل نہ کرنے سے طالبان کی زیادتیوں کو قانونی حیثیت دینے اور خواتین کے حقوق اور خواتین کی بامعنی شرکت کے علمبردار کے طور پر اقوام متحدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔"
اوتن بائیفا نے کہا کہ دوحہ اجلاس میں بنیادی طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے بزنس ، افغان بینکنگ سیکٹر، اور انسداد منشیات،اوران مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو ملک میں خواتین کے حقوق سے متعلق ہیں۔
طالبان نے اپنی حکومت کے اقدامات کا بھر پور دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ افغان ثقافت اور اسلامی قانون کی سخت تشریح سے ہم آہنگ ہیں۔
گوتریس نے دوحہ کی پچھلی میٹنگز کی صدارت کی تھی لیکن آنے والے اجلاس کی میزبانی روزا ڈی کارلو کریں گی انہوں نے مئی میں کابل کا دورہ کیا تھا اور متقی کو مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
طالبان نے ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا ان کے وزیر خارجہ اجلاس میں وفد کی قیادت کریں گے۔
اوتن بائیفا نے جمعے کو سلامتی کونسل میں اپنی تقریر میں زور دیا کہ، "ہم ایک پراسس تشکیل دینے اور مشاورت کے ایک اہم طریقہ کار کے تحفظ کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اس بارے میں حقیقت پسند ہونا چاہیے کہ اس پراسس میں ہونے والی ہر میٹنگ میں کتنی پیش رفت ہو سکتی ہے، خاص طور پر اس ابتدائی مرحلے میں جہاں اعتماد اور بھروسہ خاطر خواہ نہیں ہے۔"
سخت موقف کے حامل طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار پر اس وقت قبضہ کیا تھا جب امریکی قیادت والےنیٹو فوجی اس وقت کے باغی طالبان کے ساتھ تقریباً دو دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان سے واپس چلے گئے تھے۔
فورم