پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف لانگ مارچ کے اعلان کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے پر غور کر رہی ہیں۔
تحریکِ عدم اعتماد یا ان ہاؤس تبدیلی کو لے کر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اختلافات کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے حالیہ ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑی سمجھی جا رہی ہیں۔
ماضی میں منقسم رہنے والی حزبِ اختلاف اب ایک بار پھر مشترکہ حکمتِ عملی کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ حزبِ اختلاف رہنماؤں کی ملاقاتوں کا بنیادی نکتہ تحریکِ عدم اعتماد بتایا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ایوان کے اندر تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے اور یہی حزبِ اختلاف کے پاس بہترین جمہوری راستہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے لیے حزبِ اختلاف کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
مبصرین کا بھی ماننا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے بڑھتے ہوئے رابطے اور کم ہوتے فاصلے حکومت کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی میں حکمران جماعت تحریکِ انصاف کو اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ قلیل اکثریت حاصل ہے۔
وزیرِ اعظم سے پہلے اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد آ سکتی ہے؟
البتہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا ماننا ہے کہ وہ حکمران جماعت کے ناراض اراکین کی حمایت اور اتحادی جماعتوں کو علیحدہ کرنے کی حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف مشترکہ حکمتِ عملی سے حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کر سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کے لیے ہر جمہوری راستہ اپنانے کو تیار ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی جماعت نے اپنی تجاویز دیگر اپوزیشن جماعتوں کے سامنے رکھ دی ہیں اور اگر اتفاق رائے ہو گیا تو حکومت کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لائی جائے گی۔
اس سوال پر کہ حکومت کے اتحادی بدستور ان کے ساتھ کھڑے ہیں تو تحریکِ عدمِ اعتماد کیسے کامیاب ہو گی؟ خورشید شاہ نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی نے اسی ایوان سے حکومت کی اکثریت کے باوجود کامیابی حاصل کی تھی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی تحریکِ انصاف کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو شکست دی تھی جس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تھا۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کہتے ہیں کہ تحریکِ عدمِ اعتماد کے معاملے پر بھی بات چیت جاری ہے اور پارلیمان میں اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیرِ اعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک لائی جا سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق حزبِ اختلاف جماعتوں کے درمیان وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لانے پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدمِ اعتماد پیش کی جا سکتی ہے۔
قواعد کے مطابق وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ایوان کو تقسیم کر کے یعنی اوپن ووٹنگ ہو گی جب کہ اسپیکر کے خلاف اراکین خفیہ رائے شماری کا حق استعمال کریں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لانے کا مقصد حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان باہمی اعتماد کو بحال کرنا ہے۔
خیال رہے کہ پارلیمانی تاریخ میں دو وزرائے اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی جو ناکام رہی۔
پہلی تحریکِ عدم اعتماد 1989 میں اس وقت کی وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو اور دوسری اگست 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف لائی گئی تھی۔
اپوزیشن جماعتیں الگ الگ لانگ مارچ کیوں کر رہی ہیں؟
ایوان کے اندر تبدیلی کی باز گشت کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لے کر حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہیں۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا اتحاد 23 مارچ جب کہ پیپلز پارٹی اپنی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ 27 فروری کو کراچی سے اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔
مبصرین الگ الگ مارچ کو حزبِ اختلاف کی منقسم پالیسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف بھی سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف جماعتوں کو مشترکہ طور پر لانگ مارچ کرنا چاہیے۔
مقامی ٹی وی کے ایک شو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ بہتر ہو گا کہ ہم پیپلز پارٹی کے 27 فروری کو اعلان کردہ لانگ مارچ میں مل کر مارچ کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ خواہش ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے 27 فروری کے لانگ مارچ کا حصہ بننے کا فیصلہ ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کی جماعت 27 فروری کے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت تمام حزبِ اختلاف جماعتوں کو دعوت دے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے میں اپنی ہم خیال جماعتوں کو لانگ مارچ کی دعوت دی ہے اور دوسرے مرحلے میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔
خورشید شاہ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی سے مشاورت کے بغیر لانگ مارچ کا اعلان کیا تاہم وہ چاہیں گے کہ حزبِ اختلاف کسی نہ کسی صورت مشترکہ لانگ مارچ کرے۔
انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ تمام قیادت ایک ہی کنٹینر پر ہو بلکہ الگ الگ کنٹینرز پر رہتے ہوئے بھی مشترکہ مارچ کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی امور کے تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ حکومت و اپوزیشن کے درمیان ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کے لیے حکومت کے پاس اپنے حربے ہوتے ہیں اور حزبِ اختلاف کی اپنی چالیں ہوتی ہیں ایک دوسرے کو دباؤ میں رکھنے کے لیے۔
انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کو احساس ہے کہ مہنگائی سے عام آدمی ناراض ہے اور صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر الگ الگ لانگ مارچ ہوتے ہیں تو اس سے ظاہر ہو گا کہ حزبِ اختلاف میں اتفاق نہیں ہے اور اگر مشترکہ لانگ مارچ کیا جاتا ہے تو یہ ابھی واضح نہیں کہ اس سے حاصل کیا کرنا ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ لانگ مارچ سے حکومت کو مفلوج تو کیا جا سکتا ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ گر جائے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس دباؤ کی حکمتِ عملی تو ہے لیکن درپیش مسائل کا ایسا کوئی حل پیش نہیں کیا کہ عوام میں یہ خواہش پیدا ہو کہ حزبِ اختلاف حکومت سنبھال لے۔
دوسری جانب حکومتی وزرا کا مؤقف رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔
اتوار کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں کو یہ ڈر ہے کہ ان سے پہلے کوئی ڈیل نہ کر لے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کو دھوکہ دیتی رہی ہے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہو گا۔