پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ وقتی طور پر حل ہونے کے بعد اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کی باز گشت جاری رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا رواں ماہ کے شروع میں کہنا تھا کہ پہلے ہمارا وزیر اعظم نیا ہوگا اور پھر آرمی چیف کی مد ملازمت میں توسیع سے متعلق آئین میں ترمیم ہو گی۔
اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا لندن میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ جتنی جلدی ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے۔ قوم کے لیے بہتر ہے۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک اپوزیشن کی طرف سے ان ہاؤس تبدیلی سے متعلق بیانات آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی پر حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے ہے۔
SEE ALSO: کیا اب بیورو کریسی پنجاب حکومت چلائے گی؟'یہ صرف سیاسی بیانات لگتے ہیں'
تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ انہیں یہ صرف سیاسی بیانات لگتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ تو انہیں ایسی صورت حال نظر آ رہی ہے اور نہ ہی حزب اختلاف میں وہ سنجیدگی ہے جو ان ہاؤس تبدیلی کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔
مظہر عباس نے مزید کہا کہ اپوزیشن نے سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد لانے کا ایک تجربہ کر لیا ہے اور اگر وہ تجربہ کامیاب ہونا ہوتا تو ہو سکتا تھا لیکن نہیں ہوا اس کے باوجود کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت تھی۔
مظہر عباس نے بتایا کہ ہم نے آزادی مارچ میں بھی دیکھا کہ رہبر کمیٹی میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آئے اور اپوزیشن آزادی مارچ میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ حزب اختلاف اگر چاہے تو مرکز سے زیادہ پنجاب میں عثمان بزدار کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے اندر بھی عثمان بزدار کی مخالفت موجود ہے۔
SEE ALSO: 'دھرنا ختم ہوا ہے، مارچ نہیں'ان کے بقول جب پنجاب میں ہی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی تو مرکز میں ان ہاؤس تبدیلی صرف حکومت کو پریشرائز کرنے سے زیادہ کچھ نہیں۔
'ایسا لگ نہیں رہا کہ کچھ ہو'
اس حوالے سے تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ جب مولانا فضل الرحمٰن دارالحکومت گئے تھے تب کہا جا رہا تھا کہ مولانا ویسے ہی نہیں آئے کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔
ایاز امیر نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں ان ہاؤس تبدیلی کیسے لا سکتے ہیں۔ آپ وزیر اعظم تبدیل کریں۔ جو ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت باہر بیٹھی ہوئی ہے یا چپ ہے تو ایسا لگ نہیں رہا کہ کچھ ہو۔
بلاول بھٹو کے آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے متعلق آئینی ترمیم سے پہلے نئے وزیراعظم کے بیان اور شہباز شریف کی لندن میں ہونے والی پریس کانفرنس میں وزیراعظم کی تبدیلی کے مطالبے پر ایاز امیر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کو تکالیف اور ہیں۔ شہباز شریف کی تکالیف اور ہیں۔ ان کے خلاف کیسز ہیں۔ آئے روز ان کے خلاف اخبارات اور ٹی وی میں خبریں چلتی ہیں۔ وہ تو ایسے کہتے رہیں گے۔ وہ صرف وزیر اعظم کو ٹارگٹ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
SEE ALSO: آرمی چیف کی مدتِ ملازمت، قانون سازی آئندہ چھ ماہ میں کیسے ممکن؟ایاز امیر کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے معاملے کے بعد پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی قربت اور زیادہ بڑھی ہے۔
ان کے بقول آرمی چیف کی مد ملازمت میں توسیع کے چیمپئن کون تھے۔ وہ وزیر اعظم عمران خان ہی تھے اور آرمی چیف کی ملازمت کی مدت میں توسیع سے متعلق جو بھی قانون بننا ہے۔ وہ حکومت نے بنانا ہے۔
ان کے بقول انہیں نہیں لگتا کہ ان ہاؤس تبدیلی ہو سکتی ہے۔
'حکومت کو اپوزیشن سے بات کرنا پڑے گی'
بلاول بھٹو اور شہباز شریف کے بیانات پر مظہر عباس کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کی شرمندگی حزب اختلاف کو نظر آ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سادہ اکثریت سے مدت ملازمت میں توسیع کروا تو سکتی ہے۔ حکومت کے پاس سادہ اکثریت ہے لیکن اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو آرمی چیف کی ایکسٹیشن کے لیے پیغام اس طریقے سے نہیں جائے گا جیسا حکومت چاہتی ہے۔
SEE ALSO: آرمی چیف کے منصب کی دوڑ سے کون کون باہر ہوا؟مظہر عباس کا مزید کہنا ہے کہ اتفاق رائے کے لیے حکومت کو حزب اختلاف سے بات کرنی پڑے گی۔ جو حکومتی وزیر کر بھی رہے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان، اپوزیشن کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول ایسی صورت حال میں اپوزیشن ووٹ دینے اور اتفاق رائے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مدت ملازمت میں توسیع اتفاق رائے سے نہیں ہوتی تو ایک بہت برا پیغام جائے گا اور ایک نئی بحث چھڑ جائے گی۔