کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کے نتائج آنے کے بعد جہاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اپنی جیت کا جشن منانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سمیت دیگر سیاسی جماعتیں دھاندلی کے الزامات عائد کر کے نتائج کو مسترد کر رہی ہیں۔
سیاسی پنڈت ان نتائج کو پرکھ کر سیاسی حالات کا پیش منظر باندھ رہے ہیں۔
کالعدم قرار دی گئی ٹی ایل پی کی مقبولیت برقرار کیوں؟
نتائج کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے حال ہی میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی مقبولیت حلقے میں برقرار رہی ہے۔
ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے تحریک لبیک کے امیدوار نذیر احمد کمالوی نے 11 ہزار 125 ووٹ حاصل کرکے تیسرے پوزیشن برقرار رکھی ہے۔
سال 2018 کے عام انتخابات میں بھی ٹی ایل پی کے مفتی عابد مبارک حسین یہاں سے 23 ہزار 981 ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر ہی رہے تھے۔
یہ نتائج ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب تحریک لبیک کی جانب سے اسے کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست زیر سماعت ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ رواں ماہ 10 اپریل کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 سیالکوٹ میں بھی تحریک لبیک کے امیدوار نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
ایک ایسی جماعت جسے ریاست کی جانب سے پرتشدد احتجاج، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہو، اس کی عوامی مقبولیت کے برقرار رہنے کا کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ اس سوال پر معروف صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ووٹ بینک ختم کرنا مشکل امر ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس جماعت کو مین اسٹریم سیاست کرنے دی جائے۔ ان کے خیال میں ایسے آثار لگ رہے ہیں کہ تحریک لبیک سے پابندی ہٹا دی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر تحریک لبیک کو دبایا گیا اور کالعدم ہی رکھا گیا۔ تو اس سے یہ جماعت کوئی اور رنگ اختیار کر لے گی۔ اس لیے اس کا بہتر حل تو یہی ہے کہ انہیں انتخابی سیاست میں رہنے دیا جائے۔
دوسری جانب تجزیہ کار اور مصنف نذیر لغاری بھی اس خیال سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی جماعت کا ووٹ بینک موجود ہے تو اسے ختم کیوں کیا جائے۔ جہاں بہت سے نکتہ ہائے نظر موجود ہیں وہاں اس جماعت کا بھی حالات و واقعات پر اپنا نکتہ نظر موجود ہے۔ ان کے بقول اس جماعت کے نکتہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، غیر منطقی کہا جاسکتا ہے، لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس نکتہ نظر ہی کا گلہ دبانے کی بات کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نظریہ پہلے بھی کسی نہ کسی جماعت کی شکل میں برقرار تھا اور اب تحریک لبیک کی صورت میں پھر سامنے آیا ہے۔
نذیر لغاری کے بقول اگر کوئی جماعت تشدد کی راہ اپنائے، لاقانونیت کا راستہ اختیار کرے۔ تو ریاست باقاعدہ قانونی طریقہٴ کار کو اپناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے تو پھر تو اس عمل کی حمایت کی جا سکتی ہے۔
حلقے میں تحریکِ انصاف اس قدر جلد غیر مقبول کیوں ہو گئی؟
تحریکِ انصاف کے فیصل واوڈا نے اسی حلقے سے 33 ماہ قبل عام انتخابات میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف کو 723 ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔ اور 35 ہزار 344 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے تھے۔ البتہ انتخابات سے قبل دہری شہریت چھوڑنے میں مبینہ تاخیر سے نااہلی سے بچنے کے لیے جماعت نے انہیں سینیٹر منتخب کرایا جس پر انہوں نے اس نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
جمعرات کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریکِ انصاف کے امیدوار امجد اقبال آفریدی صرف آٹھ ہزار 922 ووٹ لے کر پانچویں نمبر پر رہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس حلقے میں مرکز میں حکمران جماعت نے کمزور امیدوار اتارا۔ جب کہ اس کے ساتھ موجودہ حکومت کی کارکردگی کا معاملہ بھی پیش پیش رہا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ مجموعی معاشی اور سیاسی حالات کا اثر بھی ظاہر ہے ان نتائج پر نظر آیا۔ اور مہنگائی اور بے روزگاری سمیت دیگر وجوہات کا اثر واضح ہے۔
دوسری جانب نذیر لغاری کا کہنا تھا کہ جیسے تحریک انصاف ملک کے دیگر حلقوں میں ہاری ہے۔ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں تو تحریکِ انصاف کے لیے نتائج سال 2002 کے عام انتخابات ہی کی طرح ہوں گے۔ جب پارٹی کو ملک بھر سے قومی اسمبلی کی محض ایک ہی نشست مل سکی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سال 2018 میں اس حلقے سے تحریک انصاف کو اس ہوا کے ووٹ ملے تھے جو اس وقت تحریک انصاف کے حق میں ملک بھر میں چلتی نظر آ رہی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مفتاح اسماعیل کے بارے میں یہ تاثر قائم کیا گیا کہ وہ یہ انتخابات جیت رہے ہیں۔ جب کہ پیپلز پارٹی کو اس مقابلے میں کہیں سمجھا نہیں جا رہا تھا۔ لیکن ان کے خیال میں حقیقت میں ایسا کم ہی نظر آ رہا تھا۔
نذیر لغاری نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اس علاقے سے پانچ بار الیکشن جیت چکی ہے اور اس بار کامیابی میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) کے میاں اعجاز شفیع بھی دو بار اس علاقے سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
ووٹوں کی کم شرح؛ ’یہ خطرناک علامت ہے‘
کراچی کے اس حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح محض 21 اعشاریہ 64 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں 10 اپریل کو قومی اسمبلی کے ڈسکہ سے حلقے میں یہ شرح 55 فی صد سے بلند تھی۔
سہیل وڑائچ کے مطابق اس سے پہلے بھی کراچی میں ووٹوں کی شرح کم دیکھنے میں آئی ہے۔ اس میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ مسئلہ صرف اس حلقے ہی میں ہے یا مجموعی طور پر کراچی میں ہے کہ لوگوں نے بہت کم حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کراچی کی ہی صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ لوگوں نے سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے تو یہ ایک خوف ناک صورتِ حال کی نشاندہی ہے۔
سہیل وڑائچ کے خیال میں ہمیں کراچی کے لوگوں کو سیاسی عمل میں شامل کرنا ہو گا۔ کیوں کہ ایسا نہ کرنے کے نتائج بہت برے ہوتے ہیں۔ سیاسی عمل میں حصہ نہ لینے کا مطلب اپنی محرومیوں اور دکھوں کی وجہ سے لوگ ریاست اور حکومت سے ناراض ہوتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہماری مدد نہیں کر رہا۔ یہ خراب صورتِ حال ہے، اس کا مداوا ہونا چاہیے۔
ادھر نذیر لغاری کا کہنا ہے کہ جب کراچی میں بہت زیادہ ووٹ ڈالنے کا تاثر تھا اس وقت بھی بہت کم ہی لوگ ووٹ ڈالا کرتے تھے۔ جب کہ اس بار تو انتخابات میں گہما گہمی بھی بہت کم ہی پیدا کی جا سکی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کو سیاسی عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہاں لوگوں کو انفرادی شخصیات کو دیوتا بنا کر انہیں اس کے عشق میں مبتلا رکھا گیا جس کی وجہ سے لوگ اب تک سیاسی عمل سے زیادہ بہرہ مند نہیں ہو سکے۔