سکھر میں مبینہ طور پر پولیس کی حراست میں نوجوان کی ہلاکت کے خلاف سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے کیے گئے۔ جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے عرفان علی کھڑوس ڈاکو تھا جو مقابلے میں مارا گیا۔ اس کے تین ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ انسانی حقوق کے کارکن اور وکلا نے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
نوجوان کے اہلِ خانہ کے مطابق 25 سالہ عرفان جتوئی سندھ یونیورسٹی میں سیاسیات کا طالب علم تھا۔ اسے چند روز قبل یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے اسے کسی عدالت میں پیش نہیں کیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ سکھر پولیس نے عرفان کی رہائی کے لیے 20 سے 25 لاکھ روپے کی رشوت طلب کی تھی اور نہ دینے پر اسے جھوٹے مقابلے میں رات گئے قتل کر دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عرفان جتوئی عرف کھڑوس کی بازیابی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔ تاہم ان کی بازیابی عمل میں نہیں لائی گئی۔
مقتول کے اہل خانہ نے وزیراعظم، وزیر اعلیٰ سندھ اور دیگر حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے میں ملوث پولیس افسران کو فوری گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔
'عرفان کھڑوس ڈاکو تھا۔ پولیس مقابلے میں مارا گیا'
پولیس کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق عرفان جتوئی عرف کھڑوس ڈاکو تھا۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کی ہلاکت پولیس مقابلے کے دوران ہوئی۔
پولیس کے مطابق سکھر کے علاقے تھانہ جھانگڑو کی حدود فش فارم کے قریب گشت پر مامور پارٹی سے مقابلہ ہوا جس میں ایک ڈاکو ہلاک جب کہ اس کے تین ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ملزم سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ڈاکو کی شناخت عرفان کھڑوس کے نام سے ہوئی ہے جو مختلف سنگین نوعیت کے مقدمات اور وارداتوں میں مطلوب تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پولیس نے مزید کہا کہ کریمینل ریکارڈ کے مطابق ہلاک ڈاکو کار چھیننے، ڈکیتی، چوری، پولیس مقابلوں اور دیگر سنگین وارداتوں میں ملوث تھا اور مختلف مقدمات میں کراچی، سکھر، جامشورو اور نوابشاہ سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں درج ڈیڑھ درجن سے زائد مقدمات میں مطلوب تھا۔
طلبہ کا احتجاج
واقعے کے بعد سندھ یونیورسٹی میں طلبہ نے احتجاج کیا۔
طلبہ نے یونیورسٹی میں ریلی نکالی اور نعرے بازی کی۔
احتجاج میں شریک طلبہ کا مؤقف تھا کہ سکھر پولیس نے جعلی مقابلہ دکھا کر عرفان جتوئی کو ماورائے عدالت قتل کیا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ عرفان جتوئی کے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقات کرائی جائیں۔
'سندھ میں پولیس مقابلوں کی تاریخ داغ دار ہے'
انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اور دیگر نے بھی واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مبینہ ماوارئے عدالت قتل کی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
جبران ناصر نے کہا ہے کہ سندھ میں پولیس مقابلوں کی تاریخ داغ دار ہے جس میں طاقت کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے اور انکاؤنٹر اسپیشلسٹ حکومت کی ناجائز سرپرستی کا لطف اٹھاتے رہے ہیں۔
سندھ بار کونسل نے بھی عرفان جتوئی کی ہلاکت کی مذمت کی ہے اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔