حکومتِ پاکستان نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے پارلیمنٹ سے قانون تو منظور کرالیا ہے لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت کے لیے اس پر عمل درآمد کرانا آسان نہیں ہو گا۔
پاکستان کے بعض علاقے بالخصوص وسطی پنجاب میں اگر کسی حلقے میں بیرونِ ملک سے آنے والے ووٹ شامل ہوئے تو کئی حلقوں کے نتائج یکسر تبدیل ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ایک پاپولر فیصلہ ہے لیکن اس تمام عمل کے رولز بننا باقی ہیں اور ان کی مدد سے ہی یہ عمل مکمل ہو سکے گا۔
ماضی میں بھی کئی بار بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی باتیں کی جاتی رہی تھیں جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق بھی تھیں لیکن اس کے طریقۂ کار پر آج تک اتفاق نہیں ہو سکا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس بارے میں تجویز دی تھی کہ اس عمل کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی نشستوں کی طرح دیکھا جائے جس میں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں مہاجرین کے لیے چھ نشستیں مخصوص ہیں اور پاکستان کے مختلف شہروں میں ان نشستوں پر رجسٹرڈ ووٹرز کے ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اسی انداز میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی نشستیں مخصوص کر دی جائیں جن پر انتخاب کے ذریعے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو نہ صرف ووٹ کا حق بلکہ اسمبلی میں باقاعدہ نمائندگی بھی دی جائے۔
SEE ALSO: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: انتخابی اصلاحات ترمیمی بل منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ اور عدالتوں میں جانے کا اعلانپاکستان سے بیرونِ ملک جانے والے افراد کی تعداد کے بارے میں نادرا کے ریکارڈ کے مطابق 83 لاکھ افراد بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جنہوں نے نائیکوپ کارڈ حاصل کر رکھے ہیں اور بیرونِ ممالک شہریت کے ساتھ ساتھ ان کے پاس پاکستان کی شناختی دستاویزات بھی موجود ہیں۔
ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو صرف غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں اور انہوں نے آج تک پاکستانی دستاویزات کلیم نہیں کیں۔
83 لاکھ پاکستانیوں میں سے بہت سے بچے بھی شامل ہیں جن کے والدین نے ان کے لیے نائیکوپ کارڈ تو بنوا دیے لیکن پاکستان کے قانون کے مطابق 18 سال کی عمر سے قبل انہیں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سلسلے میں ایک سروے شروع کیا ہے جس میں نادرا کے ریکارڈ کے مطابق ان لاکھوں پاکستانیوں کے پاکستان میں دیے گئے پتوں کے مطابق ان کی دی گئی تفصیلات کی تصدیق کی جا رہی ہے۔
الیکشن کمیشن کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق بعض حلقوں میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن میں شہری علاقے زیادہ ہیں۔ ان میں وسطی پنجاب کے علاقوں میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، گجرات، جہلم اور اس کے اطراف کے علاقے ہیں جب کہ سندھ میں کراچی سے بڑی تعداد میں پاکستانی بیرونِ ملک رہائش پذیر ہیں۔
اسی طرح خیبر پختونخوا سے بھی ایک بڑی تعداد مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں رہائش پذیر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں مقامی میڈیا پر آنے والی خبروں کے مطابق بعض شہروں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ شامل ہونے سے کئی حلقوں کے نتائج تبدیل ہونے کا خدشہ ہے جیسے لاہور شہر میں 14 حلقے ہیں اور نادرا ریکارڈ کے مطابق صرف لاہور سے تعلق رکھنے والے سات لاکھ سے زائد پاکستانی بیرونِ ملک مقیم ہیں۔
ان افراد کو ووٹ کا حق ملا تو فی حلقہ 50 ہزار ووٹ بڑھ سکتے ہیں اور کسی بھی حلقے میں دو سیاسی جماعتوں کے درمیان ووٹوں کا فرق بعض اوقات صرف چند سو تک ہوتا ہے۔ لہذا یہ 50 ہزار ووٹ کسی بھی حلقے میں ڈالے جانے کی صورت میں نتائج کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نئے قانون پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟
بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیے جانے کے بعد ووٹ کاسٹ کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے جس کے لیے حکومت پراعتماد ہے۔
اس بارے میں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ کے سوال پر کہا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ نادرا نے اس حوالے سے ابتدائی کام کر لیا ہے اور باقاعدہ ایک سسٹم تشکیل دے دیا ہے جس کی مدد سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔
البتہ فواد چوہدری نے اس کی تفصیل نہیں بتائی کہ یہ سسٹم ہے کیا۔
انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر محفوظ قرار دیا ہے تاہم حکومت نے ان مسائل کو جلد حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کے مطابق انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کے بارے میں الیکشن کمیشن نے تاخیر کی ہے کیوں کہ عدالت کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس بارے میں تمام ضمنی انتخابات میں اس کی کوشش کریں گے لیکن ماسوائے ایک انتخاب کے ایسی کوشش دوبارہ نہیں کی گئی۔
SEE ALSO: 'صرف آئین پاکستان سے متصادم قانون ہی عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے'الیکشن کمیشن کے مطابق ایک مرتبہ کی جانے والی کوشش میں انٹرنیٹ کے ذریعے صرف ڈیڑھ سو کے قریب افراد نے اپنی رجسٹریشن کرائی تھی اور ووٹ کا حق استعمال کیا تھا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو صرف ووٹ کا حق نہیں بلکہ انہیں الیکشن لڑنے کا حق بھی ملے گا لیکن سمندر پار پاکستانیوں کے دوہری شہریت چھوڑنے، اپنے اثاثے ظاہر کرنے سمیت کئی معاملات ابھی حل طلب ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق ابھی صرف قانون سازی ہوئی ہے۔ ان کے بقول اس قانون کے رولز بننا اور ان کی منظوری ہونا باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئندہ انتخابات ابھی سے متنازع بنا دیے ہیں، اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے اعتراضات کے باوجود قانون بنائیں گے تو اس سے مسائل سامنے آئیں گے۔
'بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے ڈیٹا بیس سب سے زیادہ ضروری ہے'
مظہر عباس کے بقول، "یہ قانون جس قدر عجلت میں بنایا گیا ہے اس سے بہت سے مسائل سامنے آئیں گے، مجھے لگ رہا ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور اگر عدالت متفق ہوئی تو یہ قانون ختم بھی ہو سکتا ہے۔"
پاکستان میں انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن کے سرور باری کہتے ہیں کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایت تین سال پہلے سے ہے۔ لیکن اس بارے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اب تک کوئی نظام وضع نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ انتخابی نظام پر اعتراض تو اب بھی موجود ہے جیسا کہ ڈسکہ الیکشن میں ہوا۔ لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دیا جائے۔
سرور باری کہتے ہیں بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے ہمیں مختلف ممالک کا جائزہ لینا ہو گا اور صرف انٹرنیٹ کے ذریعے نہیں بلکہ پوسٹل بیلٹ کا آپشن بھی موجود ہے۔
ان کے بقول، "فی الحال صرف ووٹ کا حق دینے والے افراد کا ڈیٹا بیس سب سے زیادہ ضروری ہے، جب تک ان کی اصل تعداد اور ووٹرز کا تعین نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس نظام کو مکمل کرنے کے لیے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔"
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں نئی قانون سازی سے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کو تو سیاسی فوائد حاصل ہوں گے لیکن اس عمل سے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے کیوں کہ ان کے بقول وہ افراد جن کا پاکستانی مسائل سے کوئی تعلق نہیں اگر انہیں مقامی سیاست میں داخل کریں گے تو کیسے تبدیلی لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کے لیے پہلے رجسٹریشن کا عمل ہونا ہے اور دیکھنا ہو گا کہ کتنے لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کے بعد اگلی چیزیں ہوں گی
مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ ایک ایسے موقع پر جب الیکشن کمیشن اور حکومت میں بظاہر ٹھنی ہوئی ہے تو ایسے میں ان مسائل کے حل کے لیے دونوں فریقین کیسے چلیں گے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔