پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جمعہ کی صُبح ایک مبینہ امریکی میزائل حملے میں مقامی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق 25 مشتبہ عسکریت پسند ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
اس دور دراز سرحدی علاقے میں صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے اس لیے ڈرون حملوں اور ان میں ہونے والے جانی ومالی نقصانات کی مصدقہ اطلاعات کا حصول قریباََ ناممکن ہے
بغیر پائلٹ کے جاسوس طیار ے یا ڈرون سے داغے گئے میزائلوں کا ہدف شمالی وزیرستان کے سپن وام نامی گاؤں میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے زیر استعمال ایک قلعہ نما گھر تھا جو اس حملے میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔
یہ ڈرون حملہ امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن کے دورہ پاکستان کے محض دو دن بعد کیا گیا ہے۔
ایڈمرل ملن سے ملاقاتوں میں پاکستانی عہدے داروں نے ایک مرتبہ پھر افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں مبینہ امریکی میزائل حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔
پاکستانی فوج کی طرف سے بدھ کی شب جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق ایڈمرل ملن سے بات چیت میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے ملک کا موقف دہراتے ہوئے کہا تھا کہ ڈرون حملے انسداد دہشت گردی کی مہم کے لیے عوامی حمایت میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
تقریاً ایک ماہ قبل شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں ایک میزائل حملے میں کم از کم 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے پاکستان نے پاک، افغان اور امریکہ سہہ فریقی اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ مارے گئے بیشتر افراد طالبان مخالف قبائلی عمائدین تھے۔
امریکہ گذشتہ کئی مہینوں سے پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں قائم حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک بھرپور فوجی کارروائی ا آغاز کرے۔ تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ اس کی فوج شدت پسندوں سے خالی کرائے گئے دیگر شمال مغربی علاقوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں مصروف ہے اور فوری طور پر کوئی نیا محاظ کھولنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔