اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے اختتام پر دنیا کی آبادی سات ارب ہو جائے گی اور عالمی سطح پر تمام افراد کے لیے خوراک اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے یکساں مواقع پیدا کرنا دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
بدھ کو اسلام آباد میں اقوام متحدہ نے عالمی آبادی کے بارے میں اپنی رپورٹ جاری کی اور اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی حکام نے تشویش ظاہر کی کہ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کی اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ سیکرٹری چودھری محمد اعظم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرکاری سطح پر ملک میں کئی دہائیوں سے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم جاری ہے لیکن اب بھی ملک کی آبادی میں اضافے کی شرح سالانہ 2.3 فیصد ہے۔
’’اگر آبادی میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو 2050ء میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدیدار ٹیموپکالا نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ 1950ء میں پاکستان کی آبادی چار کروڑ تھی اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا 13 واں بڑا ملک تھا لیکن اب یہ چھٹے نمبر پر ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی آبادی کی شرح میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو 2050ء میں اس کی آبادی 33 کروڑ 50 لاکھ ہو جائے گی۔
منصوبہ بندی کمیشن کے جوائنٹ سیکرٹری چودھری اعظم کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے بین الاقوامی برادری بشمول امریکہ کے تعاون سے آگاہی کی ایک بھرپور مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ علمائے اکرام اور مذہبی رہنماء آبادی میں بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے میں حکومت کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں اس لیے اُنھیں بھی قومی مہم کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے بلند شرح پیدائش کے علاوہ اپنی رپورٹ میں عالمی آبادی میں اضافے کی دیگر وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ 1950ء کی دہائی میں اوسط زندگی 45 سال تھی جو اس صدی کے پہلے عشرے میں 68 سال کی حد کو چھو رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 1950ء کی دہائی میں ایک ہزار شیر خوار بچوں میں سے 133 اوائل عمری میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے تھے لیکن 2005 سے 2010 کے درمیان ایک ہزار نومولود بچوں میں 46 ہلاک ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ایشیا اکیسویں صدی میں زیادہ آبادی والا براعظم رہے گا لیکن افریقہ میں بھی آبادی تین گنا ہونے کے امکانات ہیں۔