پاکستان اور امریکہ گزشتہ 75 برس سے ایک دوسرے کے اتحادی ہیں اور اس عرصے میں امریکہ نے ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات میں کسی حد تک ثالث کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد گرم جوشی سے شروع ہونے والے دو طرفہ تعلقات میں تناؤ کب اور کیسے پیدا ہوا؟ اس تصنیف میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاکستان 14 اگست 1947 کو جب وجود میں آیا، تو امریکہ ان ممالک میں شامل تھا، جس نے اس نئے ملک کو فوراََ تسلیم کیا اور 15 اگست کو اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے بانیٴ پاکستان محمد علی جناح کو مبارک باد کا پیغام بھی بھیجا۔
سرد جنگ میں پاکستان جلد ہی امریکی اتحادی بن گیا۔1950 کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو اتحاد میں پاکستان کی شمولیت دونو ں ممالک کے مابین بہتر تعلقات کے آغاز کی عکاسی کرتی ہے۔
امریکی صدور کا دورہ پاکستان
دسمبر 1959 میں یعنی قیامِ پاکستان کے 12 برس بعدآئیزن ہاور وہ پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔
دسمبر 1967 میں امریکی صدر لنڈن جانسن کراچی میں صدر ایوب خان سے ملنے کے لیے آئے۔
اگست 1969 میں صدر رچرڈ نکسن نے سرکاری دورے پر لاہور میں صدر یحییٰ خان سے ملاقات کی۔
مارچ 2000 میں بل کلنٹن صدر تارڑ اور جنرل پرویز مشرف سے ملنےدارالحکومت اسلام آباد آئے۔
صدر بش آخری امریکی صدر تھے جنہوں نے مارچ 2006 میں پاکستان کا دورہ کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کی بنیادی وجہ کیا رہی؟
اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سابق سفیر ٹریسٹا شیفر کا کہنا ہے کہ وہ کہیں گی 1965 میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر پر جنگ ہوئی تو امریکہ نے دونوں ممالک کو بھیجی جانے والی فوجی امداد بند کر دی، جس سے بھارت کو زیادہ فرق نہیں پڑا البتہ پاکستان کے لیے اس کی بہت اہمیت تھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے امریکہ پاکستان اور بھارت دونوں کو فوجی امداد دیتا رہا۔ پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں تعینات رہنے والی سفارت کار ٹریسٹا شیفر نے مزید کہاکہ یہ ایک اتفاق نہیں تھا کہ یہ وہی وقت تھا جب چین اور پاکستان کے تعلقات قائم ہوئے۔
ان کے خیال میں یہ اس بات کا ردِ عمل تھا کہ پاکستان کو لگا کہ امریکہ نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے تناظر میں پاک امریکہ تعلقات
مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان ملک سے الگ ہونے کے دہانے پر تھا جب کہ بھارت اور پاکستان ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔
پاکستان نے ایک مرتبہ پھر امریکہ کی طرف مدد کے لیے دیکھنا شروع کیا۔ واشنگٹن ڈی سی میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر اکبراحمد کو ان فسادات کے دوران حکومت پاکستان نے ڈھاکہ میں نائب چیف سیکریٹری کی طور پرتعینات کیا تھا۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پروفیسر اکبر احمد کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں پاکستان اور امریکہ کے اچھے تعلقات تھے تو پاکستان کی امید تھی کہ بھارت کے خلاف امریکہ اسے اپنے نیوی یا جنگی جہاز بھیجے گا اور یہ بڑا مشہور تھا اس زمانے میں کہ ایئر کرافٹ کیئریر بنگال کی طرف روانہ ہو گئے لیکن آخر میں وہ نہیں آئے۔
اکبر احمد کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان کی انتظامیہ کو مایوسی ہوئی۔ مارچ 1971 میں سیاسی بنیادوں پر شروع ہونے والے فسادات کا اختتام تب ہوا جب پاکستانی فوج کو مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے پڑے اور اسی برس 16 دسمبر کو بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔
پاکستان امریکہ کا قابل بھروسہ اتحادی رہا؟
اس حوالے سے بیشتر ماہرین سرد جنگ کے دوران سویت یونین کےخلاف افغانستان میں جنگ کو پاکستان کا پہلا امتحان قرار دیتے ہیں جب کہ پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو وہ امریکہ اور چین کے درمیان روابط قائم کرنے میں اپنے اہم کردار کی بات بھی کرتا ہے۔
اس حوالے سے سابق سفیر ٹریسٹا شیفر نے کہا کہ ا امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان، امریکہ کے لیے تب اہم ہوا جب وہ سوویت یونین کے خلاف اتحادی بنا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی نزدیک تو آئی مگر ان کے عزائم ایک جیسے نہیں تھے۔
ان کے مطابق پاکستان کے صدر ایوب خان نے خوشی سے سوویت یونین کے خلاف معاہدے پر دستخط کیے کیوں کہ شاید وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس سے بھارت کے خلاف امریکہ، پاکستان کے اتحادی کے طور پر ابھرے گا۔بھارت مخالف اتحاد تو نہیں بن سکا مگر اس مد میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی اور فوجی امداد ملی۔
ویڈیوز دیکھیے |
---|
مبصرین کے مطابق نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ترقیاتی شعبوں سے زیادہ، سیکیورٹی اور دہشت گردی کے خاتمے سے منسلک رہے۔ معاشی اور فوجی امداد کے ذریعے دونوں ملکوں میں تعلقات کو برقرار رکھا گیا مگر دونوں جانب سےاعتماد کی کمی بھی رہی۔
پھر مئی 2011 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور امریکی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پاکستان امریکہ تعلقات میں سرد مہری آتی رہی ہے۔
امریکہ کی افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے دوران واشنگٹن کا یہ الزام رہا کہ پاکستان انتہا پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے جب کہ اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ اس جنگ میں اس نے اتحادی کے طور پر سب سے زیادہ قربانی دی ہے۔
پاک امریکہ کا مستقبل؟
اس سلسلے میں واشنگٹن میں تعینات پاکستان کے سفیر مسعود خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ غصہ پایا جاتا ہے کہ اسے ہمیشہ افغانستان کے عدسے سے دیکھا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی اپنی ایک جہت ہے اور اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اس کو آگے بڑھانا چاہیے، اسے فروغ دینا چاہے۔ ہمیں نہ صرف افغانستان بلکہ بھارت اور چین کے لینس سے بھی نہیں دیکھنا چاہیے۔
پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے سلسلے میں پاکستان میں تعینات امریکہ کے سابق سفیر ولیم مائلم کا کہنا ہے کہ امریکہ، افغانستان میں پاکستان کی جانب سے ادا کیے جانے والے کردار سے کچھ زیادہ خوش نہیں رہا لیکن دونوں ممالک کو سیکیورٹی سے بالاتر ہو کر تجارتی اور ترقیاتی شعبوں میں تعلقات بڑھانے کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حقیقت پر مایوسی ہے کہ بظاہر پاکستان کامیابی کے بجائے ناکامی کی راہ پر گامزن ہے اور انہیں یہ کہنا پڑے گا کہ اگر پاکستان اس حد تک ایک ایسی ناکام ریاست بنتا ہے جس میں اس کا بات کا خطرہ ہو کہ بنیاد پرست سیاسی جماعتیں ملک پر کنٹرول حاصل کرسکتی ہیں تو پھر انہیں اس کے بارے میں سوچنا ہو گا اور انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا مطلب جنوبی ایشیا کے امن اور ہمارے امن کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو فراموش کر دینا کوئی اچھا خیال نہیں ہے۔
بیشتر ماہرین اتار چڑھاؤ کے شکار پاکستان امریکہ تعلقات کو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی اہم قرار دیتے ہیں۔ لیکن ماہرین اس وقت دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار میں کمی کی وجہ سے مستقبل قریب میں ان کے دو طرفہ تعلقات میں گرم جوشی کے امکان کو دشوار سمجھتے ہیں۔